خارجہ پالیسی میں چھائیانوف اور لائی سنکو کی پہچان


\"wajahat\"اسلامیان ہند نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں یہ قطعہ ارضی کیا اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں ہر نوع کی جواب طلبی سے بے نیاز ہو کر عقل و خرد کو بے دخل کیا جا سکے؟ عقل و خرد کو زندگی کے تمام شعبوں سے دیس نکالا دینے کا ایک صدری نسخہ سیانوں نے صدیوں سے ایجاد کر رکھا ہے۔ اقتدار پر قبضہ کیا جائے، اقتدار کے چاروں طرف ایک چار دیواری تعمیر کر دی جائے، ایک طرف علم کے نام پر فصیل بنائی جائے، دوسری طرف بلا احتساب اختیار کی دیوار اٹھائی جائے، تیسری سمت مراعات کا من مانا جھروکہ درشن دے اور چوتھی دیوار شہریوں میں اونچ نیچ کی اٹھائی جائے۔ اس چار دیواری کے اوپر تقدیس کی چادر ڈال دی جائے۔ دروازے پر پہرہ بٹھا دیا جائے اور اعلان کیا جائے کہ ہماری ریاست خاص ہے، اسے دوسری عامیانہ ریاستوں جیسا نہ سمجھا جائے، علم کی راہیں ہم بیان کریں گے۔ اختیار کسے دیا جائے گا یہ فیصلہ ہمارا ہو گا۔ مفادات کے چشمے سے پانی پینے کی اجازت کسے ہوگی، یہ فیصلہ ہم کریں گے۔ مراعات یافتہ حیثیت کا متمدن محلہ امتیاز کی لکیر کے کس طرف بنے گا اور عوام کی کچی بستی کس طرف آباد ہوگی، یہ فیصلہ بھی اپنی بے پناہ بصیرت کی روشنی میں ہم خود کریں گے۔ اور جو ہمارے خلاف آواز اٹھائے گا وہ نااہل، بدعنوان، بکاو¿ مال اور ملک دشمن ہوگا۔ آج کل خارجہ پالیسی پر بقراطی کے دن ہیں۔ ماشااللہ سے ایک سے ایک حرفوں سے بنا باون گز کا راون اس دیس میں ہے۔ ٹھیک ٹھیک بتاتا ہے کہ ہم نے ماضی میں کیا غلطیاں کیں، اب ہم نے کیسی اچھی راہ اختیار کی ہے اور اگر اس گیسوئے تابدار میں مزید افشاں چھڑکنی ہے تو کن ممالک سے دوستی کی جائے اور کسے دشمنی کا پیغام بھیج دیا جائے۔ یہ کہانی اس سے پہلے تاریخ میں بہت دفعہ لکھی جا چکی۔ آج بھی اس تمثیل کے کچھ حصے دنیا کے بہت سے حصوں میں کھیلے جارہے ہیں۔ آئیے آپ کو ماضی قریب کے ایک کھیل کی جھلکیاں دکھائیں۔

اکتوبر 1917 میں روس کا انقلاب برپا ہوا۔ سبحان اللہ! جوش و جذبے کا عالم دیدنی تھا۔ مزدوروں اور کسانوں نے زار شاہی کا تختہ الٹ دیا تھا۔ دنیا کو بدل دینے والے دس دنوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ نعرہ تھا کہ \”امیروں کا ستیاناس ہو\”۔ دنیا بھر کے مزدور ایک ہوچکے تھے۔ صاحبان، انقلاب اقتدار ہی کے کھیل کی ایک شکل ہوتی ہے۔ اتحادی ڈھونڈے جاتے ہیں، عبوری حکومت بنتی ہے، پھر ایک ایک کر کے حریف ٹھکانے لگائے جاتے ہیں، صحافت میں بااعتماد لوگ دریافت کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ دور کے تجربہ کار لوگوں کی ڈھنڈیا پڑتی ہے، قسمت آزمانے والے نئے دور کے نعرے لگاتے قسمت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ بحران کی موجوں پر نئے قزاق پتوار چلاتے ہیں، پہاڑوں سے مجاہد اترتے ہیں، فضاو¿ں میں عقابی نگاہ والے پرندے نمودار ہوتے ہیں۔ روس میں بھی یہی ہوا، زراعت کے ایک ماہر تھے، ایلگزینڈر چھائیانوف، پڑھے لکھے سائنسدان تھے، زرعی تحقیق کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ نئی حکومت میں چھائیانوف کو زرعی معاملات میں رہنمائی کی ذمہ داری دی گئی۔ سمجھنا چاہیے کہ آمریت علم سے رہنمائی نہیں لیا کرتی۔ دراصل علم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ صاحب اختیار کی نیت کو علمی اصطلاحات کا لبادہ پہنایا جائے۔ چھائیانوف نے سٹالن جیسے عظیم رہنما کی زرعی بصیرت سے اختلاف کی غلطی کی۔ 1930 میں گرفتار ہوئے، سازش کا منصوبہ بے نقاب ہوا۔ اس زمانے میں زیر تحویل بیان کی ویڈیو فلم نہیں بنائی جاتی تھی۔ چھائیانوف بری ہوگئے۔ 1932 میں پھر پکڑے گئے، خفیہ مقدمہ چلا کر پانچ سال قید سنائی گئی۔ رہا ہوئے تو پھر نامزد کیا گیا۔ اکتوبر 1937میں گرفتار کرکے اسی شام گولی مار دی گئی۔ چھائیانوف نے آمریت کا تصور علم سمجھنے سے انکار کیا تھا۔ پچاس برس بعد چھائیانوف کو 1987 میں تمام الزامات سے بری قرار دے دیا گیا۔ چھائیانوف کے ایک ہم عصر زرعی سائنسدان ترافیم لائی سنکو تھے۔ انہوں نے عظیم سٹالن کی نظریاتی رہنمائی میں موسم سرما کے بیجوں کو عوامی بصیرت کی مدد سے بہارنے کا عظیم سائنسی نظریہ پیش کیا۔ اخبارات میں ان پر مضامین شایع ہوئے۔ روس کی زرعی سائنس کے سربراہ بن گئے۔ سوشلسٹ نظریے کی حتمی سچائی کا سائنسی ثبوت دینے والے کو اعزاز پر اعزاز ملا۔ سوویت یونین میں قحط پڑ گیا۔ لائی سنکو ترقی کرتا گیا اور چند کروڑ لوگ بھوک سے مر گئے۔ سٹالن کے مرنے کے بعد لائی سنکو کے نظریات پر ہلکی پھلکی تنقید شروع ہوئی، دس برس بعد سوویت حکومت نے لائی سنکو کو فراڈ سائنسدان اور جعلی نظریات کی بنیاد پر سیاسی اقتدار سمیٹنے والا قرار دیا۔ لائی سنکو نے گمنامی کی حالت میں 1976 میں وفات پائی۔ نظریات کے شامیانے میں کچھ لوگ علم کے چھائیانوف ہوتے ہیں اور کچھ پالیسی کے لائی سنکو۔

1988 کے دن تھے، افغانستان میں سوویت قبضے کے خلاف مزاحمت کا آخری مرحلہ تھا، محمد خان جونیجو کی سیاسی حکومت جنیوا سمجھوتے پر دستخط کر کے افغان دلدل سے نکلنا چاہتی تھی۔ سرد جنگ ختم ہورہی تھی، دنیا بھی یہی چاہتی تھی کہ اب آگے بڑھا جائے۔ پاکستان میں جنرل ضیا الحق اور ان کی جنتا نے افغان مزاحمت میں گویا سونے کی کان دریافت کر لی تھی۔ مچھر مار گوریلا کارروائی کا ہتھیار ایسا موثر نظر آتا تھا کہ اسے تزویراتی گہرائی کا نام دیا گیا۔ تزویراتی گہرائی ایک عسکری اصطلاح ہے۔ اپنے اور دشمن کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کو تزویراتی گہرائی کہا جاتا ہے۔ اگر فوجی رہنما اپنے عقب میں گہرائی پیدا کرنا چاہے تو اسے حکمت عملی نہیں، شکست خوردگی سمجھا جاتا ہے۔ مگر صاحب لائی سنکو کا موسم تھا، مارچ 1988 کے پہلے ہفتے میں جنیوا سمجھوتے پر گول میز کانفرنس ہوئی۔ دس اپریل 1988 کو اوجڑی کیمپ کی قیامت برپا ہو گئی۔ 14 اپریل کو جنیوا سمجھوتے پر دستخط ہوئے اور 29 مئی کو جونیجو حکومت برطرف کر دی گئی۔ تزویراتی گہرائی کا کھیل شروع ہوچکا تھا۔ چھائیانوف مردود ٹھہرایا جاتا ہے، لائی سنکو لال حویلی میں شادیانے بجاتا ہے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ چوتھائی صدی کے بعد آج لائی سنکو لکھتا ہے کہ ہم نے خود کو سستا بیچا۔ ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ نظریاتی نظر بندی میں مشکل یہی ہوتی ہے کہ یہ معلوم کرنا ممکن نہیں رہتا کہ ڈانلڈ ٹرمپ اکثریت کی دھمکی دے رہا ہے، نریندر مودی جہالت کی دھمکی دے رہا ہے یا مقامی لائی سنکو تقدیس کی دہائی دے رہا ہے۔ حکمرانوں کی خوشامد کا الزام چاروں طرف اچھالا جاتا ہے۔ یہ سوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہوتی کہ اصل حکمران کون ہے اور سچائی کے کچھ نقیب بار بار صدارتی نظام کی وکالت کیوں کرتے ہیں۔ دنیا کی بساط پر ہماری موجودہ مشکلات کا سبب کسی کی مفروضہ فریب کاری نہیں۔ ہم نے خود کو مسلسل دھوکہ دیا اور کبھی یہ نشاندہی نہیں کی کہ سردار داو¿د سے لے کر ملا عمر تک کسی نے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ تب ہم پاکستان، افغانستان سرحد کی ناقابل عبور جغرافیائی تفصیلات بیان کیا کرتے تھے۔ تب کسی نے مطالبہ نہیں کیا کہ قوم کو مستقل غیروں کا سیارچہ بنانے کی بجائے علم کو نصب العین بنایا جائے۔ معیشت کی بات سوچی جائے اور اہل وطن کے ساتھ انصاف کی کچھ صورتیں نکالی جائیں۔ اگر قوم کو بیچنا ہی ہے تو اس دکانداری میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔ قوم قابل فروخت جنس نہیں ہوتی، قوم کی علمی، معاشی اور اخلاقی توقیر بڑھائی جاتی ہے۔ اسے قدر افزائی (value added) کی ثقافت کہتے ہیں۔ ہمیں پوچھتے رہنا چاہئے کہ صحافت، سائنس اور سیاست میں لائی سنکو کون ہے اور چھائیانوف کا کردار کس کے حصہ میں آتا ہے۔ لائی سنکو کی علمی قامت پر 1965 میں نہیں، 1937 میں انگلی اٹھانی چاہئے۔ سیاست دان کی بصیرت پر 2016 میں نہیں 1988 میں سوال اٹھانا چاہئے۔ قدروں کے زوال کا مرثیہ آپریشن ضرب عضب کے بعد نہیں، بیسویں صدی ہی میں لکھنا چاہئے اور معلوم کرتے رہنا چاہئے کہ طاقت کے عقوبت خانے میں کون قید ہے۔ مشتعل ہجوم کی دھمکی کون دیتا ہے اور تقدیس کے خیمے میں کون پردہ نشین ہے جو بوریہ نشینوں کو چونتیس ملکی اتحاد میں شمولیت کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر بغداد پیکٹ کا شوق ابھی پورا نہیں ہوا تو سمجھنا چاہئے کہ بغداد کی تاریخ میں بغداد پیکٹ ہی نہیں، سقوط بغداد کا ذکر بھی آتا ہے۔

  یہ کالم روز نامہ جنگ میں 17 جون 2016 کو شائع ہوا 

http://jang.com.pk/print/122059-wajahat-masood-column-2016-06-18-khaja-policy-mae-chaiyanof-aur-laayisanko-ki-pehchan


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments