سائبر کرائم اور ہماری بہادر بیٹیاں


\"aqdas

ہمارے معاشرے کچھ روایات بہت عجیب ہیں۔ اب اس روایت کو ہی لیجیے کہ اگر کوئی خاتون کسی مشکل کا شکار ہیں تو ہم یہ قیاس کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے کہ موصوفہ اس مشکل میں اپنے کیے کی وجہ سے پھنسی ہوں گی۔ مثال کے طور پر اگر بچہ کوئی غلطی کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ماں کا قصور ہے۔ راہ چلتی عورت کے ساتھ کوئی بدتمیزی کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اکیلی باہر گئی ہی کیوں؟ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین پر یہ الزام دھر دیا جاتا ہے کہ ان کا لباس دعوت دے رہا تھا۔ شوہر اگر مار پیٹ کرے تو کہا جاتا ہے کہ تم نے سوال کرنے یا انکار کرنے کی گستاخی ہی کیوں کی؟ کسی خاتون اورمرد کی گاڑی کا ایکسڈنٹ ہو جائے تو قصور وار یقینا خاتون کو ہی ٹھہرایا جائے گا۔ شوہر برا ہو اوربیوی اگر خلع لینا چاہے تو معاشرہ عورت پر اس قدر تنقید کرے گا کہ مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو مجرم گرداننے لگے گی۔ بیچاری یہی سوچنے لگے گی کہ اس ذلت سے تو اچھا تھا کہ میں خاموش رہتی۔ سب کی جوتیاں کھانے سے تو بہتر تھا کہ ایک ہی شخص کی جوتیاں کھاتی رہتی۔ ہمارے معاشرے میں ان گنت ایسی خواتین ہیں جو معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کسی نہ کسی صورت میں ناانصافی برداشت کر رہی ہیں۔ اور وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف آواز صرف اس لیے نہیں اٹھا پاتیں کیونکہ معاشرہ انہیں سپورٹ نہیں کرتا۔

ایسے معاشرے میں کسی عورت کا اپنے ساتھ ہونے والے جبر کے خلاف آواز اٹھانا اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانا ایک نہایت بہادرانہ فعل ہے۔ ایسی ہی ایک بہادر عورت کھاریاں کی ایک استاد ناظمہ کریم ہے جسے اس ہی کے علاقے کا ایک آدمی بلیک میل کر رہا تھا۔ یاسر نامی اس شخص نے اس خاتون کی فیس بک پروفائل ہیک کی اور خاتون کو دھمکایا کہ اگر وہ اس کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گی تو وہ اس خاتون کی تصاویر کو ایڈٹ کر کے لوگوں کو بھیج دے گا۔ ٖخاتون کے انکار کرنے پر یاسر لطیف نے ان کی تصاویر کو ایڈٹ کیا اور فیس بک سمیت دیگر سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ڈال دیں۔ خاتون خاصی باہمت تھیں۔ اس نے نا صرف یاسر کی بات ماننے سے انکار کیا بلکہ اس واقعہ کو رپورٹ بھی کیا۔ ایف آئی کے سائبر کرائم ونگ نے بھی ان کے ساتھ تعاون کیا اوربلیک میلرکو گرفتار کرنے میں خاتون کی مدد کی۔ یاسر کے کیس کی سماعت کے دوران اس کا خاندان اور علاقہ کے معززین خاتون اور ان کے شوہر پر دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ یاسر کے خلاف شکایت واپس لے کر کیس ختم کر دیں۔ مگر ایک بھر اس خاتون نے ہمت دکھائی اور بغیر دباؤ میں آئے اپنےموقف پر ڈٹی رہی۔ خاتون کے بقول جس دوران یاسر انہیں دھمکاتا رہا اور ان کی تصاویر کو استعمال کرتا رہا وہ وقت انہوں نے نہایت اذیت اور پریشانی میں کاٹا تھا اور اس کا ازالہ تبھی ہو گا جب یاسر اپنے کیے کی سزا کاٹے گا۔ اس واقعہ سے یاسر جیسے لوگ عبرت پکڑیں گے اور خواتین کو بھی حوصلہ ملے گا کہ وہ ایسے کسی واقعہ کو رپورٹ کریں۔ ناظمہ کریم کے شوہر کو بھی داد دینی چاہیے جس نے بے غیرتی کے نجانے کتنے طعنے سنے ہوں گے اور چھبتی نظروں کے کتنے وار خاموشی سے سہے ہوں گے۔ اس سب کے باوجود اس نے اپنی بیوی کا ساتھ دیا اور اس کو ڈرانے والے کو کیفر کردار تک پہنچایا۔

عموما ہمارے ہاں ایسے واقعات کو خواتین رپورٹ نہیں کرتیں اور بلیک میل کرنے والوں کے ناجائز مطالبات پورے کرنے لگتی ہیں، جس سے نقصان خواتین کا ہی ہوتا ہے۔ یہ بلیک میلر حضرات جونک کی طرح چمٹ جاتے ہیں۔ جس قدر خواتین ان سے خوف زدہ ہوتی ہیں اس قدر یہ انہیں مزید تنگ کرتے ہیں۔ اور جہاں خاتون یہ فیصلہ کر لے کہ بس اب بہت ہو گیا، وہیں ان کی دھمکیاں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ مگر معاشرے میں بدنامی کا خوف خواتین کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتا ہے اور وہ بلیک میلرز کے ہاتھوں کھلونا بنی رہتی ہیں۔

میں بذات خود ایسے ہی ایک بلیک میلر کانشانہ رہ چکی ہو ں اوراس اذیت کا اندازہ بخوبی کر سکتی ہوں۔ 2012 میں میرا فیس بک اکاؤنٹ ہیک ہوا اور میری تصاویر کو ایڈٹ کر کے بہت سے لوگوں کی وال پر پوسٹ کیا گیا، جن میں میرے اساتذہ بھی شامل تھے۔ میرے ان دنوں ایم فل کے فائنل امتحانات تھے۔ مجھے پیپر بھی دینا ہوتا تھا، تیاری بھی کرنی ہوتی تھی اور یہ بھی دیکھنا ہوتا کہ اب کس کی وال پر میری تصویریں پوسٹ ہو رہی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کرنا، ان سے تصویریں ہٹانے کی درخواست کرنا، لوگوں کے سوالات کا سامنا کرنا اور ساتھ ہی ساتھ اپنا اکاونٹ واپس حاصل کرنے کی تگ ودو کرنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ میں ہاسٹل میں رہتی تھی اور والدین کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی، لہذا سب مسائل کا اکیلے ہی سامنا کر رہی تھی۔ ان دنوں سائبر کرائم سے متعلق کوئی خاص قوانین نہیں تھے اور نہ ہی لوگوں میں اس مسئلے سے متعلق کوئی شعور تھا۔ ہاسٹل کی لڑکیاں جو میرے فیس بک میں ایڈ تھیں مجھے ایسی نظروں سے دیکھتی تھیں جیسے میری پروفائل ہیک ہونا بھی میرا ہی قصور ہے۔

یہ بھی سننے کو ملا کہ جولڑکیاں فیس بک پر تصویریں لگاتی ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہم بھی تو ہیں جنہوں نے فیس بک پر تصویریں نہیں لگائی ہوئیں۔ ایک دوست نے یہ مشورہ بھی دیا کہ جو مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ پورا کر دو۔ قصہ مختصر، ایک ہفتہ ایسے ہی گذرا اور کچھ دوستوں کی مدد سے میں نے اپنا اکاؤنٹ واپس حاصل کر لیا۔ فیس بک سیکیورٹی بھی سیکھی اور اس کے بعد کبھی میرا اکاؤنٹ ہیک نہیں ہوا۔ میں نے کچھ وقت بہت مشکل میں تو گزارا لیکن اس واقعہ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا۔

مجھے لگتا تھا کہ تعلیم ہمیں روشن خیال بناتی ہے۔ دل و دماغ پر اٹی دھول کوجھاڑتی ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اجاگر کرتی ہے۔ مگر مجھے نہایت مایوسی ہوئی جب میں نے پڑھے لکھے لوگوں، خاص طور سے خواتین کو مجھ پر تنقید کرتے ہوئے دیکھا۔ ایک خاتون کا ری ایکشن تو اتنے سال بعد بھی مجھے نہیں بھولا۔ موصوفہ نے تازہ تازہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا، ڈی ایم جی گروپ میں ان کی تقرری ہوئی اور ان دنوں سی ایس اے اکیڈمی میں ٹریننگ کر رہی تھیں۔ خیر میرے چارہ گر ہیکر موصوف کا یہ مشغلہ بھی تھا کہ وہ نہ صرف میری تصاویر بلکہ کچھ جسمانی اعضاء کی تصاویر انتہائی نا زیبا الفاظ کے ساتھ پوسٹ کرتے تھے۔ ایک دن محترمہ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کا فون آیا اوربولیں اقدس آپ کی وجہ سے میری وال پر ایسی تصاویر پوسٹ ہوئی ہیں اور مجھے نہایت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا وغیرہ۔ محترمہ کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس سب میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نے بھائی صاحب کو ہر گز دعوت نہیں دی تھی کہ وہ میرے نام کو اس طرح استعمال کریں۔ اس وقت بجائے لعنت ملامت کرنے کے اگر آپ ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے میری ہمت بڑھائیں تو مشکور ہوں گی۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ کچھ عرصے بعد یہ سننے کو ملا کہ موصوفہ کو گمان تھا کہ میں کوئی خراب کردارکی لڑکی ہوں اسی لیے میرے ساتھ ایسا ہوا۔ ورنہ ان کی پروفائل تو کسی نے ہیک نہیں کی۔

ایسے معاملات میں لڑکی کے گھر والے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکی ہوں کہ ہمارے معاشرے کی یہ ریت ہے کہ ہم لڑکیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس ریت کو اب ختم کر نا ہو گا۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں پر اعتماد کریں۔ انہیں ڈرانے کی بجائے تحفظ فراہم کریں۔ اگر آپ بیٹی پر اعتماد نہیں کریں گے، اسے ڈرا دھمکا کر رکھیں گے تو وہ کبھی بھی اپنے مسائل آپ کو نہیں بتائے گی۔ اور چونکہ آپ کو وہ مسائل بتا نہیں سکے گی تو جو صیح یا غلط اس کے دماغ میں آئے گا وہ کرے گی۔ اس میں آپ کا بھی نقصان ہے اور آپ کی بیٹی کا بھی۔ میں خود جب اس مسئلے کا سامنا کر رہی تھی تو مجھے جس بات سے سب سے زیادہ حوصلہ ملا وہ میرے والدین کا اعتماد تھا۔ مجھے اتنا یقین تھا کہ میرے گھر والے مجھ پر الزام لگانے کی بجائے میرے مسئلے کو سمجھیں گے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ جو لڑکیاں ایسے مسائل کو رپورٹ کر رہی ہیں ان کی ہر ممکن مدد کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے ایڈووکیسی گروپ بنائے جو معاشرے میں ان مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کریں۔ ڈراموں، پبلک سروس میسج، کانفرس اور اشتہارات کے ذریعے اس پیغام کو عام کیا جائے کہ اس قسم کے واقعات میں قصور خواتین کا نہیں ہوتا۔ اصل مجرم وہ لوگ ہیں جو انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ جو خواتین اس مسئلے پر بات کر رہی ہیں وہ بری خواتین نہیں۔

مجھے آج کھاریاں کی اس بہادر بیٹی ناظمہ کریم کے بارے میں پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ میں چاہتی ہوں کہ میری ملک کی ہر بیٹی اتنی ہی بہادر ہو۔ اتنی باہمت ہو کہ تن کر ظالم کے سامنے کھڑی ہو اور اس کا ظلم سہنے سے انکار کرے۔ میری اور نکہتا گل کی خواہش ایک سی ہے

”میں امید کرتی ہوں کہ ہماری بیٹیوں کی روح میں اس قدر حرارت اور حوصلہ ہو کہ چاند اور آتش فشاں بھی ان کے آگے ماند پڑ جائیں“۔


لڑکیوں کی آن لائن بلیک میلنگ کا معاملہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments