سلمان حیدر اور نفیس زکریا۔۔۔ ولیم کوہن کس کا بھائی ہے؟


\"\"بچپن میں تایا کے بیٹے نے ایک لطیفہ سنایا تھا۔ آپ بھی سن لیں تو آگے بات کروں۔

\”بل کلنٹن نے نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔ دورے کے دوران ایک دن واجپائی نے کلنٹن سے پوچھا کہ جناب صدر آپ اپنے وزراء کیسے چنتے ہیں۔ کلنٹن نے کہا کہ میں ان کا آئی کیو ٹیسٹ لیتا ہوں۔ واجپائی جی نے کہا کہ کوئی مثال دیجئے۔ کلنٹن نے ولیم کوہن کو بلایا اور پوچھا کہ تمہارے ماں باپ کی ایک اولاد ہے، نہ وہ تمہارا بھائی ہے، نہ بہن، بتاؤ وہ کون ہے؟ ولیم کوہن نے کہا کہ میں وہ خود ہوں۔

نواز شریف صاحب پاس بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے پاکستان آ کر مشاہد حسین سید سے یہی سوال کیا۔ مشاہد حسین نے کچھ وقت مانگا۔ کافی سوچنے کے بعد بھارت ایل کے ایڈوانی کو فون کر کے یہی سوال دہرایا۔ ایل کے ایڈوانی نے کہا کہ یار آسان سا سوال ہے، میں خود ہی وہ اولاد ہوں۔ مشاہد حسین سید وزیر اعظم کے پاس آئے اور خوشی خوشی انہیں بتایا کہ جواب مل گیا ہے، اس بچے کا نام ایل کے ایڈوانی ہے۔ میاں صاحب نے خفا ہوتے ہوئے کہا، نالائق کے نالائق ہی رہنا۔ وہ ایڈوانی نہیں ولیم کوہن ہے۔

یہ قریب بیس سال پرانا لطیفہ آج نفیس زکریا صاحب کا وہ وڈیو کلپ دیکھ کر یاد آیا جس میں موصوف گمشدہ بلاگرز کی تضحیک فرمانے کے ساتھ ساتھ ان سے یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ ان بلاگرز نے کشمیریوں کے لیے کبھی آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ انہوں نے اس تقریب سے خطاب کے دوران ان بلاگرز کو تضحیک آمیز لہجے میں انسانی حقوق کے علمبردار کہتے ہوئے ان کے سپورٹرز پر بھی طفلانہ قسم کی پھبتیاں کسنے کی ناکام کوشش کی۔

میرے خیال میں ہمیں اپنی توانائیاں یہ ثابت کرنے میں صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ  جبران ناصر، سلمان حیدر یا دیگر بلاگرز نے کشمیر کے لیے آواز اٹھائی یا نہیں۔ نفیس زکریا صاحب کی بات ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ نہ تو انہیں ان بلاگرز کے بارے میں کچھ پتہ ہے اور نہ ان کے خیالات اور نظریات کے بارے میں۔

سوال تو خود نفیس زکریا صاحب پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ انگریز کے دور میں جب ہندوستان کے باسیوں کو محدود اختیار دیا گیا تو سیاسی جماعتیں وجود میں آنے لگیں۔ مغربی سامراج میں ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ خود کو اچھا دکھانے کی کوشش ضرور کرتے تھے۔ انیسویں صدی کے آخر تک یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا۔ لیکن بالآخر یہ ایک سامراجی قوت تھی اور سیاستدان خواہ کیسے بھی ہوں بالآخر تھے تو عوام میں سے ہی۔ یہ عوام میں اٹھتے بیٹھتے بھی تھے اور لوگ ہی انہیں منتخب بھی کیا کرتے تھے۔ انگریز نے ان کو قابو میں رکھنے کا طریقہ یہ نکالا کہ سرکاری افسران اور سپاہیوں کو ان سیاستدانوں پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ ظاہر ہے کہ ایک مکمل طور پر عوامی نمائندے سے یہ سرکار کے نمک خوار کہیں زیادہ قابل بھروسہ سمجھے جاتے تھے۔ ہندوستان پر برطانوی راج کی بنیادی طاقت یہی فوجی اور سرکاری نوکر تھے۔

پھر زمانہ بدلا۔ امریکہ میں وڈرو ولسن اور روس میں بولشویکی آئے۔ ایک طرف سے سامراجیت کے خلاف علمی تنقید کی جا رہی تھی تو دوسری جانب سے جارحانہ حملے۔ بالآخر دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ، فرانس، اٹلی اور دوسری چھوٹی موٹی سامراجی طاقتوں کو گھروں کو لوٹنا پڑا۔

لیکن یہاں پر پھر بھی پہلے ہی کی طرح فوج اور ان کے کاسہ لیس سرکاری نوکر ہی پالیسیاں بناتے رہے۔ اور ان کو گھٹی جو دی ہے انگریز نے۔ انگریز تو سیاستدان کو اور عام آدمی کو اس لیے غدار سمجھتا تھا کہ وہ خود ایک سامراجی طاقت تھا اور اسے ڈر اور کسی کا نہیں صرف مقامی آبادی کا تھا۔ یہ سرکاری نوکر مقامی نمائندوں، مقامی سوچ اور مقامی فکر کے اوپر نظر رکھنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایسا اب بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے کبھی عوام کو اس ملک کا وفادار سمجھا ہی نہیں۔ ان کے خیال میں عوامی سوچ اور فکر کے انداز ریاست کے بنائی ہوئی روایات قانون سے اگر مختلف ہوں تو پالیسی تبدیل نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس سوچ اور سوچنے والے کو وطن دشمن قرار دے دینا چاہیے۔

ان کی ابھی بھی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے۔ یہ آج بھی ستر، اسی سال پرانے اسی انگریز کے دور میں زندہ ہیں کہ جب ان کا کام عوامی سوچ کو دبانا اور ریاست کی صحیح غلط پالیسیوں کا دفاع کرنا ہوتا تھا۔ نفیس زکریا سے کوئی شکایات نہیں۔ وہ بیچارے تو وہی کر رہے ہیں جو انگریز نے بتایا تھا۔ کیونکہ یہ آزاد نہیں ہوئے۔ ان کی سوچ آزاد نہیں ہوئی۔ ان کے ماں باپ کی وہ اولاد جو نہ ان کا بھائی ہے اور نہ بہن، وہ آج بھی ولیم کوہن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments