بیوی کیوں محبوبہ نہیں ہوتی


عورت اور مرد کے باہمی تعلق پہ بحث کافی قدیم ہے، شاید اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ پرانی ہے۔ اس میں ایک بڑا مغالطہ اس وقت سامنے آتا ہے، جب ہم محض بحیثیت جنس ان دونوں کو دیکھتے ہیں۔حالانکہ اس سے پہلے وہ دونوں ایک ہی جیسے عوامل سے گزر کر جنم لیتے ہیں۔ ایک ہی انداز سے افزائش ہوتی ہے، لیکن جیسے ہی عالم شباب کو پہنچتے ہیں تو خط تخصیص کھنچ جاتا ہے۔اس میں خود ان کا کتنا عمل دخل ہے اس سے کہیں ضروری معاشرتی تعلیم ہے، جس کے زیر اثر دونوں پروان چڑھتے ہیں۔عمر کی پگڈنڈی پہ چلتے چلتے اس برس تک جا پہنچتے ہیں کہ جہاں اچانک ایک طرف بے حیا باحیا عورت اور دوسری طرف بے غیرت باغیرت مرد کا حلقہ قائم ہوتا ہے۔ سماجی نا ہمواری کے سبب اگر تصدیق شدہ رشتوں میں کوئی دراڑ آ جائے یا رنجش پیدا ہو تو پھر ظالم اور مظلوم کے معرکے سے یہ تعلق مقبول ہوتا ہے۔ اسی سماج کے کچھ حقیقت پسند حضرات اکثر ان دونوں کو زندگی کی گاڑی کے دو پہئے قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ حقیقت جتنی بھی بیان کی جائے کچھ کو کم اور باقیوں کو زیادہ لگتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا شمار بھی ان جاہلوں میں ہوتا ہے، جنہیں اتنی بڑی بات چھوٹی لگتی ہے۔خیال ہے کہ ان دونوں کو پہیوں کی بجائے کوئی اعلیٰ درجہ دیا جائے۔ اب تک سائنسی علم نے اتنی ترقی ضرور کر لی ہے کہ مرد اور عورت کو گاڑیاں بنانے والے افراد میں گنا جا سکتا ہے۔ اس قابل قدر تہذیبی دریافت کو سوائے ماننے کے کوئی چارہ نہیں۔

گاڑی کو رواں رکھنے کے لئے دونو ں پہیوں کا توازن میں رہنا ضروری ہے۔ ذرا سا جھول بھی روانی متاثر کر سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں حادثات رونما ہوتے ہیں۔

دونوں کے بیچ ہر رشتے کی اپنی اہمیت ہے، لیکن رشتہ وہی مانا جا سکتا ہے کہ جس پہ مہر ثبت ہو۔ یعنی اسکے علاوہ کوئی بھی تعلق قابل برداشت نہیں ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ سماجی نظم و ضبط کے لیے لازم ہے کہ بے نام رشتوں سے پر ہیز کیا جانا چاہیے۔ اس قدر احتیاط برتنے کے با وجود منتظمین پریشان حال دکھائی دیتے ہیں۔ عورت کو مظلوم مان کر بھی مرد پہ حالات کے جبر کو کم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسادور جس میں انسانی تقسیم اس قدر سفاکی کے ساتھ رائج ہو، وہاں یہ تفریق صرف مرد اور عورت کے مابین نہیں کی جا سکتی ہے۔ یہ صرف جنسی معاملہ نہیں ہے۔اگر کمزور اور طاقتور کے مابین موجود فرق کو جانا جائے تو پھر تمام تر مردانہ جوہر رکھتے ہو ئے بھی ایک ذاتی ملازم کی زندگی ویسی ہی تنگی اور گھٹن کا شکار رہتی ہے، جیسے ایک عورت کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ کئی مرد کہیں نہ کہیں اس عورت کی طرح زندہ ہیں ،جو اپنے خاوند کی خدمت کر کے اسکی محبت تلاش کرتی ہے۔ یہاں عورت اگر صرف ایک ملازمہ کی حیثیت رکھتی ہے تو پھر اصل ملازمہ بھی انسان ہے، وہ بھی عورت ہے ،اسے بھی اپنی سماجی حیثیت پہ اعتراض ہو سکتا ہے۔ وہ بھی ساری زندگی فرشوں پہ پوچا لگاتی اور برتن مانجھتی ہے، اسکی نسل کے بیشتر لوگ تھوڑی بہتر تنخواہ پہ یہی کام اسکے بڑھاپے کے بعد کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کچرا چننے والے کا بیٹا اگر کسی اعلیٰ مقام پہ پہنچ جائے تو خبر بن جاتی ہے۔ مگر جو نسل در نسل ہماری پھیلی ہوئی غلاظتوں کو صاف کرتے ہیں ان پہ ہماری دوسری نگاہ نہیں پڑتی۔

مرد یا عورت کی تفریق اصل تفریق نہیں ہے، بلکہ اصل موضوع اونچ اور نیچ کا ہے۔ مرد کے رویئے بھی یہیں بنتے ہیں، عورت بھی یہیں پیدا ہوتی ہے۔ دونوں انسانی بقا کے اہم ترین کردار ہیں اور انکے اس مقام کو کسی طرح بھی کم نہیں سمجھنا چاہئے۔ان معتبر انسانوں کو اتنی آسانی کیساتھ درست اور غلط نہیں کہا جا سکتا ہے۔ عورت کی طرف مردانہ رویئے خود کار نہیں ہیں نہ ہی مرد کے لئے عورت کے رویوں پہ کوئی جارحانہ موقف اختیار کیا جا سکتا ہے۔معاشرتی ارتقا کے دوران جو جہاں پہنچا ہے اسی مقام کی حقیقت کو حتمی سمجھ بیٹھا ہے۔ شعور جیسے تجربات سے گزرا اس معیار کے مطابق ارد گرد کو دیکھنا چاہتا ہے۔
ایک باپ اپنی بیٹی کو فیصلے کا اختیار کم کیوں دیتا ہے یا بہن اپنے بھائی کے وعظ سے گھبراتی کیوں ہے۔ بیوی اپنے میاں کی محبت کی تلاش میں شک کا جزیرہ بھی گھوم آتی ہے۔جس عشق و محبت کے چرچے زبان زد عام ہوتے ہیں وہ بیاہ ہونے کے بعد ہر دن کے ساتھ گھٹنے لگتا ہے۔ جس آگ کے بارے میں غالب بھی اقرار کر چکے ہیں کہ جب لگ جائے تو بجھنا محال ہوتا ہے۔ ملن کے بعد اس آگ کے انگارے بھی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ داستانیں، حکایتیں اور کلام عشق کے اظہار میں ہر زبان کا لفظ اور ہر ترکیب استعمال ہوتی ہے، مگر اخلاقیات عملًا اس کو شجر ممنوعہ قرار دیتی ہیں۔یہاں دوہرے معیار کے لئے کسی دوسرے حوالے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک طرف ممنوع ہے جبکہ دوسری جانب مقصود ہے، ہر زبان و ادب کا زیادہ تر حصہ ایسی ہی روایات کا پتہ دیتا ہے۔ حتیٰ کہ جو خود ان تجربات سے ہو کے آتے ہیں وہ آخری عمر میں اسے غیر اخلاقی حرکت سمجھتے ہیں۔ایک زمانہ ہوتا ہے کہ جب محبت میں کوئی رکاوٹ اور کوئی لجاہٹ آڑے نہیں آتی، یوںہی خیال کی زمین سے فطرت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور اس میں احساس کنول کے پھول کی طرح آزاد تیرتا رہتا ہے، کبھی جو کوئی تتلی پل بھر کے لئے اس پھول پہ آ جھکتی ہے تو محبت کا استعارہ بن جاتی ہے۔ یہ حرکت بے حس جتنی بھی ہو مگر بے معنی نہیں ہو سکتی۔ گرمیوں کی جھلسانے والی دو پہر میں ، کسی درخت کی گھنی چھاو¿ں میں اگر کوئی مسافر گھڑی دو گھڑی کے لئے ٹھہر جائے تو اس سائے کی یاد اسے تمام عمر رہتی ہے۔ وہ منظر کہ جو خواب و خیال کی دیوار عبور کر کے آنگن میں اتر آئے اسے سمے کی نیند بھی نہیں بھگا سکتی۔ جس صحبت کے لیئے خطرے مول لئے جاتے، اسباب کھوجے اور بہانے گھڑے جاتے ہیں ،جو گھڑیاں دھڑکن کی تیزی میں امر ہو جاتی ہیں، فنا کیسے ہو سکتی ہیں۔

عورت اگر بیوی بن کے محروم ہوتی ہے تو مرد بھی دوہرے معیار اور منافقت سے بیزار ہوتاہے۔ وہ بھی منتشر اور مغموم رہتا ہے۔ مگر محبوب اور محبوبہ کا جو تصور کلاسیکی ادب کے مطالعے سے بنتا ہے یا جو رومانویت کے تقدس میں نمو پاتا ہے، اسے حرف بحرف کسوٹی جان کے کسی حالیہ جذبے کو پرکھنے کی کوشش سے نتیجہ کبھی حوصلہ افزا نہیں نکل سکتا۔ آج صرف کمی پوری ہو رہی ہے، جس شیلف میں جو کمی ہے، اسے دھرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ محبت بھی اسی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور ازدواجی زندگی بھی اسی مناسبت سے استوار ہوتی ہے۔ محبت میں دو فریقین ہوتے ہیں جبکہ شادی کے بعد اس دائرے میں داخل ہونے والوں کی تعداد کا درست علم نہیں ہے۔

جو بھی ہو مگر انکی نیتوں میں برائی چھاننے کی بجائے رویوں کی تربیت اور سماج کی سمت کا تعین کرنے میں معاونت ہی اس کا ممکنہ حل ہے۔ جس دور میں ہم زندہ ہیں وہاں تہذیب پست ہے اور معیار بہت بلند، چنانچہ ضروری نہیں کہ بیوی محبوبہ بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).