​غامدی کی کتابوں کے افغان مترجم غفور فیروز کیوں شہید کیے گئے؟


تحریر: ایوب اچکزئی۔

مولانا عبدالغفور فیروز کی عمر اکتیس برس تھی۔ وہ قندھار (افغانستان) میں رہتے تھے۔ 7 مئی کی صبح وہ کرائے کے اپنے کچے مکان سے دفتر کے لئے نکلے ہی تھے کہ دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے انہیں اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنا کر موقع پر ہی شہید کر دیا۔ یہ واقعہ اس کے چند دن بعد پیش آیا جب ایک مقامی مولوی نے ان کے قتل کا فتوا جاری کیا۔ واقعے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی۔ غفور فیروز کی شہادت کے اگلے ہی روز اس کے ضعیف والد بھی اس سانحے کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ شہید کے ورثا میں بیوی، تین بچے اور دو بھائی شامل ہیں۔

غفور فیروز کا جرم کیا تھا؟ وہ ایک نوجوان مذہبی سکالر اور 50 سے زیادہ کتابوں کے مصنف، مولف یا مترجم تھے۔ سوشل میڈیا پر ایک فعال بلاگر کے طور پر دینی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے انتہا مقبول تھے۔ انہوں نے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کو اپنا مشن بنایا ہوا تھا۔ وہ دین کی سیاسی تعبیر کے ناقد اور سیاسی مقاصد کے لئے دین کے استعمال کو غلط سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مذہبی شدت پسندی، دہشت گردی اور معاشرتی عدم برداشت، دین کی سیاسی تعبیر کا شاخسانہ اور اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ وہ معاشرتی تنوع کو تبلیغ و دعوت کا موضوع سمجھتے اور دین کے صحیح فہم کو عام کرنا چاہتے تھے۔

غفور فیروز نے دینی تعلیم پاکستان میں حاصل کی۔ وہ معروف علمی ادارے ” المورد“ سے وابستہ اور جا وید احمد صاحب غامدی کی معرکتہ لآرا کتاب ” میزان“ کے پشتو مترجم تھے۔ غامدی صاحب نے انہیں اپنے شکریے کے خط میں 22 اکتوبر 2015 کو لکھا:

”آپ نے میری کتاب میزان کا ترجمہ اس قوم کی زبان میں کیا ہے جس کے دل و دماغ کی رفعتیں ابھی تک فطرت کے مقاصد کی نگہبان ہیں۔ میرے لیے یہ اس لحاظ سے بھی بڑی مسرت کا موقع ہے کہ اس سے میں ایک مرتبہ پھر اس سرزمیں تک پہنچ گیا ہوں جہاں سے صدیوں پہلے مرے آبا و اجداد نے ہجرت کی تھی۔ آپ کی عنایت کا شکریہ۔ کیا بعید ہے کہ آپ کی یہ کاوش مظلوم افغانوں کو اس صورتحال سے نکالنے کا ذریعہ بن جائے جس میں وہ بدقسمتی سے مبتلا کر دیے گئے ہیں۔ وما توفیقی الا با اللہ“

اسلام کی سیاسی تعبیر کے نقوش ویسے تو تاریخ کے صفحات پر بہت دور تک تلاش کیے جا سکتے ہیں لیکن حالیہ تاریخ میں اس آئیڈیالوجی نے ایک باقاعدہ اور منظم سیاسی تحریک کے طور پر مصر کی سرزمین پر 1928 میں جنم لیا جب اخوان المسلمین کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی اور جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کے مسلمانوں کی فکر کو بڑی حد تک متاثر کیا۔ القاعدہ، داعش، طالبان، بوکو حرام اور النصرہ وغیرہ اسی آیڈیالوجی کے متشدد چہرے ہیں جو اسلام کے مقدس نام کو استعمال کرتے ہوئے وحشت و بربریت کے استعمال کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جائز سمجھتے ہیں۔

افغان سرزمین پر اس آیڈیالوجی کا ظہور اولاً سرد جنگ کے ہنگام 1979 میں ہوا جب جہاد کے نام پر مسلح مزاحمت منظم کی گئی اور لاکھوں افغانوں کو خاک و خون کا رزق بنا دیا گیا۔ دوسری مرتبہ1994 میں تحریک طالبان کا ظہور بھی اسی مذہبی تعبیر کا شاخسانہ تھا جو نہ صرف نائن الیون اور اس کے بعد کے خون آشام واقعات کا موجب بنا بلکہ افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں اس کی تباہ کاریاں آج تک جاری ہیں۔

غفور فیروز اس صورتحال کی اصلاح کے لیے سرگرم عمل تھے۔ وہ قرآنی تعلیمات کے مبلغ تھے اور اپنا موقف دلیل کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ انہیں اپنے موقف کی سچائی پر پورا یقین تھا اورکسی بھی قسم کے خوف کا شکار ہوئے بغیر انتہائی جرات اور بہادری کے ساتھ حق کی گواہی دیتے رہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ احساس (وجدان) کی قربانی دینے سے جان کی قربانی دینا بہتر ہے۔

وہ نہ صرف اعلئی دینی بصیرت کے مالک تھے بلکہ انتہائئی گہرا ادبی زوق بھی رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی موجودہ ہمہ جہت زوال کی بنیادی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا:

”اسلامی دنیا پر مغربی استعماریت کے دوران مسلم دنیا میں وسیع پیمانے پر جو مذہبی لٹریچر تخلیق ہوا اس میں بڑی غلطی یہ ہوئی کہ مسلمانوں کی اپنی کوتائیوں کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہرایا گیا۔ اسی وجہ سے مسلمان آج تک اپنی فکری، ادبی، علمی اور اخلاقی مسائل کا ادراک نہ کر سکے۔ اخلاقی مسائل کی تفہیم میں یہ چوک ہوئی کہ صرف جنسی بے راہ روی کو ہی اخلاقیات کا مسئلہ سمجھا گیا۔ عدل و انصاف، وعدے کی پاسداری، رحم، سچائی، قانون کا احترام، رزق حلال اور اس طرح کے دیگر اخلاقی مفاہیم کو یا تو بلکل نظرانداز کر دیا گیا یا انتہائی ضمنی حیثیت دی گئی“۔

غفور فیروز کی فکر اور دینی تفہیم کو سمجھنے کے لیے ان کی فیس بک پوسٹس میں سے چند منتخب پوسٹس ملاحظہ کیجیئے؛

§ جو آئیڈیالوجی اپنے مخالف کے قتل کو جائز سمجھتی ہو اس کو معقول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 29 جنوری 2017

§ مذہبی تعلیم کا موجودہ نظام اور نصاب تشدد کو جنم دیتا ہے۔ 22 اپریل 2017

§ طالبان کی وحشت پر خاموش رہنے والے یا تو ان کے طرفدار ہیں یا بے حس۔ 6 مارچ 2017

§ سیاسی اسلام کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کے عقیدے کی بنیاد پر سلوک کیا جاتا ہے۔ 22 دسمبر 2016

§ موت برحق ہے لیکن ہمیں نا حق مارا جاتا ہے۔ 21 جنوری 2017

§ پر تشدد سیاست میں مقا صد کے حصول کے زرائع لوگوں کی خدمت، ان کی حمایت اور عقلیت پر مبنی ہونے کی بجائے قبضہ گیری، چوری اور قتل پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک روشن مستقبل اور قومی ترقی کے لئے راستہ ہموار ہو تو ہمیں بندوق بردار مافیا، متعصب قومی سربراہوں اور قومی مفاد بیچنے والوں کی حمایت بند کرنی ہو گی۔ 4 مئی 2017

§ یہاں ہر اس شخص کو ملحد گردانا جاتا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں دوسرے مسلمان کا خون بہنا بند ہو جائے۔ 29 مئی 2017

§ تشدد انسانیت کے خلاف عمل ہے۔ جو شخص تشدد کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے مقاصد مقدس نہیں ہو سکتے۔ 27 اپریل 2017

§ انتہا پسندانہ مذہبی فکر کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے دینی فہم کو خدائی ارادے کا مظہر تصور کرتا ہے اور اسی وجہ سے خود کو کامل طور پر برحق اور مخالف کو مکمل طور پر باطل تصور کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).