فرقہ واریت میں ہمارے دوست ممالک کا کردار


ہم اکثر وبیشتر پاکستان میں دست و گریباں اسلامی مسالک کے موضوع پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں، اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن سب سے واضح وجہ وہ ممکنہ اختلاف یا اس سے آگے بڑھ کر تصادم ہے جس کی ہر وقت اُمید رکھی جا سکتی ہے۔  ہمارے مستند قرار دئیے گئے دانش ور سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سماج میں مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی مسلکی منافرت ایک خودساختہ اور وقتی عنصر ہے جس کی پیدائش اور افزائش بیک وقت اسلام دشمنوں اور پاکستان مکالف قوتوں کا کام ہے، لیکن اگر ایک لمحے کے لیے دوسری طرف دیکھا جائے تو مذکورہ مسلکی تناؤ کے دو بڑے ذمہ دار قرار دئیے گئے ممالک ایران اور سعودی عرب بیک وقت اسلام اور پاکستان دوست ممالک ہیں۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے دو سچے اور پکے دوستوں نے ہمارے ملک میں یہ خوفناک کھیل شروع کررکھا ہے جس کا انجام پاکستان کے سماج اور ریاست کی تباہی ہے۔

اِن دنوں ہمارے ذرائع ابلاغ میں قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں ہونے والے مہلک بم دھماکوں اور علاقے کے روایتی شیعہ سنی تصادم پر جاری تبصروں اور تجزیوں میں ایران اور سعودی عرب کو موردالزام ٹھہرایا جارہا ہے  جو متحارب گروہوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ فریقین یہ سب کچھ محض اس لیے کرتے ہیں کہ خلیج میں جاری باہمی تنازعات میں درکار افرادی قوت حاصل کی جاسکے۔ اس خیال کو تقویت اس طرح دی جاتی ہے کہ شیعہ مکتبہ فکر کے حامل نوجوان عراق اور شام میں داعش سے لڑنے کے لیے ایرانی فورسز کا ساتھ دے رہے ہیں جب کہ سعودی عرب جہاں شیعہ ایرانی اثرات سے نمٹنے کے لیے خطے میں فعال کردار ادا کررہا ہے وہاں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پیدا ہونے والی سعودی مخالف افرادی قوت کے سدباب کے لیے اِن کے مقامی دشمنوں کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ بعض باریک بینوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب خود داعش کے نشانے پر ہے اس لیے وہ داعش کے دشمنوں کے خلاف کیوں جنگ کرے گا بلکہ سعودی عرب پاکستان میں شیعہ اثرورسوخ اور ایران کے ساتھ مسلکی تعلقات کی بنا پر قبائلی علاقوں کے اِن شیعہ افراد کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اِن کے سدباب کے لیے اِن کے مقامی مسلکی مخالفین کی دل کھول کر مدد کرتا ہے۔ کان اِدھر سے پکڑیں یا اُدھر سے مطلب یہ ہے کہ ایک طرف ایران ہے اور دوسری طرف سعودی عرب جب کہ میدان جنگ پاکستان ہے جس کے لیے دونوں برادر اسلامی ممالک ہیں اورہم دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا دعوی کرتے ہیں۔

مسئلے کی تہیں کھولی جائیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی تذکرہ سابق امیرالمومنین حضرت ضیا الحق کا کرنا پڑتا ہے جن کے دور اقتدار میں کیے جانے والے بعض انتہائی مہلک فیصلوں نے ریاست اور اس کے سماج کی موجودہ حالت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی افواج میں تبلیغ دین کے مقصد کے تحت نان کمیشنڈ افسران کے طور پر خطیبوں اور اماموں کی بھرتیوں کو ممکن بنانے کے لیے جس طرح فوری طور پر حکم نامہ جاری کرکے درس نظامی کے فارغ التحصیل افراد کی تعلیمی اسناد کو کالج یونی ورسٹی کی اسناد کے مساوی قرار دیا گیا،  جس کی وجہ سے صرف ایک مکتبہ فکر کے منظم وفاق المدارس کی اسناد کے حامل لوگ افواج میں بھرتی ہوگئے۔ اسی طرح زکوة و عشر آرڈیننس کے عاجلانہ اجرا، بیت المال اور اوقاف، متروکہ وقف املاک بورڈ کے بارے میں نئے ترمیمی حکم ناموں کے باعث مخصوص مسلکی طور منظم گروہوں اور جماعتوں کو سرکاری اداروں میں بالادستی فراہم کردی گئی۔ ریاست اور اس کے سماج میں پائے جانے والے اِن مسلکی تضادات اور تقسیم کو بعد میں انقلاب ایران اور افغانستان میں جاری ہونے والے جہاد کے حامیوں نے خوب استعمال کیا اور چوں کہ زمین کو پہلے ہی زرخیز بنا دیا گیا تھا اس لیے بیج بونا کسی کے لیے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا، چاہے وہ ایران تھا یا سعودی عرب سب نے کھل کر کھیلا اور پاکستانی ریاست اور سماج ایک نئی مصیبت کا شکار ہونے لگے۔ بعد میں ہم نے سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ سے لے کر لشکروں کی تباہ کاریوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے اور اس کے مہلک پن میں اضافہ ہوچکا ہے۔

موضوع کی مزید شفاف وضاحت کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کے اہل تشیع ایران اور سواداعظم یکسو ہو کر سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں اور فریقین کے پاس اپنے اپنے ممدوحین کی ہر قسم کی مدد کے لیے مکمل جواز موجود ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ریاستی مقتدرہ کا غالب حصہ اپنی حمایت سعودی عرب کے پلڑے میں ڈال چکا ہے، جس کی معاشی وجوہات بھی اپنا وجود رکھتی ہیں۔ مذکورہ دونوں ممالک علاقائی بالادستی کے حصول کے لیے صرف باقاعدہ اعلان جنگ سے دور ہیں اور سعودی عرب کی طرف امریکہ سمیت کئی عالمی طاقتوں کے جھکاﺅ نے ممکنہ تصادم کی راہ بہت حد تک ہموار کردی ہے۔ اس صورت میں کئی مسلم ممالک میں شیعہ سنی تنازعے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا،  ہم چونکہ تین دہائیوں سے اس بین الاقوامی جنگ کے مقامی اثرات بھگت رہے ہیں اس لیے ہمارے ہاں ممکنہ تنازعے کی پیشگی تیاری کے طور پر کشیدگی واضح ہے۔ پاڑہ چنار اور گردو نواح میں جاری مسلکی کشیدگی کو خلیج کی صورت حال سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ بین الاقوامی تنازعات سے جڑی مقامی مسلکی کشیدگی کی دیگر مثالیں گلگت، ہنزہ اور کئی دوسرے شمالی علاقوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں اور کسی بھی ناگہانی صورت میں یہ کشیدگی متنوع مسلکی وابستگیوں کے حامل پاکستانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے کیوںکہ سوشل میڈیا کے مسلکی استعمال نے اب اس سلسلے میں کافی آسانیاں پیدا کردی ہیں۔

یہ ایک ایسی حساس صورت حال ہے جس میں پنہاں خطرناکی کے پیشگی تدارک کی ضرورت ہے،  بصورت دیگر انتہائی خطرناک حد تک مسلح اور آمادہ بہ جنگ وجدل قوتوں کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ عام دنوں میں سامنے آنے والے دہشت گردی کے واقعات اور فرقہ وارانہ جنگ و جدل کے دوران ہم نے ریاستی عدم فعالیت کے کئی مظاہر کو بہت قریب سے دیکھا ہے،  جس کے باعث پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بھی کئی بار خفت اُٹھانا پڑی اور مقامی سطح پر اس کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ لاتعداد شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح فرقہ پرست گروہوں کی شناخت رکھنے والے تشدد پسندوں نے ریاست مخالف قوتوں کا ساتھ دیا اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں اور ریاستی تنصیبات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ موجودہ صورت حال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ چوکس اورفعال ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ پاکستان کے کئی دشمن اس کی اندرونی صورت حال سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور خدانخواستہ پاکستان کو خانہ جنگی کا شکار ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملکی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو اس صورت حال میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی سطح پر کسی قسم کی مذہبی و مسلکی تقسیم کے کسی منصوبے کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).