من کا جنسی چور، عورت اور سیاسی دھوپ چھاؤں


کچھ موضوعات ایسے ہیں کہ جن پہ قلم اٹھانے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کیونکہ معلوم نہیں کیا مطلب اخذ کیا جائے۔ اہل دانش کی متنوع اقسام ہیں۔ لہذا کسی وقت کچھ بھی آپ کے نام سے منسوب ہو سکتا ہے۔ ان موضوعات میں جنسیت بہت ہی اہم ہے، اس پہ لکھنا یا بولنا مروجہ اخلاقیات سے میل کھائے تو پھر درست ورنہ لکھنے والے کے لیئے زیادہ اچھی خبر نہیں۔ روایت کا پاس رکھا جا سکے پھر تو قابل قبول ہے۔ مثلا مغربی معاشرت کی جنسی آزادی پہ تنقید اور سرحد پار جنسی جذبات ابھارنے والے فلمی مناظر پہ چوٹ کرنا کافی معقول خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی روایت سے تھوڑا سا ہٹے آپ تو پھر وہ وہ سننے کو ملے گا، جس کا تصور عام حالات میں نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن دقت یہ ہے کہ جب آپ دیکھتے ہیں تو پھر بولتے بھی ہیں۔ اگر آپ لکھنے کی عادت میں مبتلا ہیں تو یہ حرکت سرزد کریں گے اور اگر بولنے والے ہیں تو پھر بولیں گے۔ اصل میں ہمارے زیادہ تر اخلاقی ضابطے لکھنے اور بولنے سے جڑے ہیں۔ عمل میں اگر کوئی جو بھی کرتا رہے وہ ڈھکا چھپا رہتا ہے،  مگر بولنے پہ سخت ترین رد عمل آتا ہے اور لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ بے حیائی اور کفر تک کے فتوے لگائے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ عملی طور پہ ایک بڑی آبادی طے شدہ ضوابط سے ہٹ کے سرگرمیاں کرتی رہے کوئی حرج نہیں۔ لہٰذا بولنا کہنا کچھ زیادہ سہل نہیں، براہ راست تو خیر ایسے معاملات پہ بحث ممکن نہیں۔ تبھی زیادہ تر خاموش رہ کے لب سینےکی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی سن نہ لے۔

خود کو پارسا ثابت کرنے کے لیئے ہر لفظ، ہر اصطلاح اور حلیہ اختیار کر لیتے ہیں، لیکن ہمارے اندر جو چور دبکا بیٹھا ہے، وہ چھپ چھپا کے سارے حقوق محفوظ رکھتا ہے۔ خاص کر جب انگلی اٹھانے کی باری آتی ہے تو سب سے پہلے وہ انگلی اٹھتی ہے جسکی اپنی نجی زندگی میں مروجہ اخلاقی ضوابط کی خلاف ورزی کسی بھی مشتہر اخلاقی مجرم سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ وہ نفسیاتی طور پہ اس خوف کا شکار ہوتا ہے کہ کہیں اسکا راز فاش نہ ہو جائے لہٰذا ہم اپنے آپ کو کھرا ثابت کرنے کے لیے پہلا پتھر بد کردار کو مارتے ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ تاریخ بن جاتی ہے اور اگلے کئی سال گزر جانے کے بعد بھی لوگ زبان کی لذت کے لیئے اخلاقی بے راہ روی کی مثالیں نئی نسل کو دیتے رہیں گے۔ یہی داستان بن کے سلسلہ نسل در نسل اسی تواتر سے چلتا ہے۔

بدقسمتی کے ساتھ جنسی مہم جوئی کرنے والے دو افراد کی تشہیر تو ہوتی ہےاور ہر گلی اور ہر چوراہے پہ عدالت لگتی ہے، جرگے بیٹھتے ہیں پھر کہیں جا کے کسی حل پہ پہنچا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں ایک سطح پہ جا کے مرد فریق کسی حد تک دوبارہ معاشرے میں شرافت کی سیڑیھیاں دھیان سے چڑھنے لگتا ہے جبکہ عورت گناہ کی گٹھڑی بن کے ایک کونے میں ساکت پڑی رہتی ہے۔ اس سے ہمدردی کرنے والے چند ہی حوصلہ مند ہوتے ہیں باقی پھر ملامتیں ہیں جو اس نے مرتے دم تک سمیٹنی ہیں۔

اس انجام کو دیکھ کر عورت بہت سے غیرمناسب مرادنہ رویوں کو سہتی رہتی ہے، مگر بولنے سے ہچکچاتی ہے۔  اسکی وجہ یہی ہے کہ بولنے سے اس کا اپنا کردار بھی زبان زد عام ہوجائے گا۔ لوگ اسے بھی قصوروار سمجھنے لگیں گے، ان سب متوقع نتائج کے نیچے دب کر وہ اپنی اس کمزوری کے ہاتھوں مسلسل شکست کھاتی ہے مگر کسی سماجی جبر پہ زباں نہیں کھولتی۔ یہ ایک معاشرتی المیہ ہے کہ جنسی معاملات کو مرد کی غیرت، خاندان کی نام نہاد عزت کے ساتھ نتھی کر دیاجاتا ہے۔ لہٰذا عورت بیک وقت دو خطرات میں گھر جاتی ہے کہ اول اس کی اپنی بدنامی اور دوم اس کے خاندان کی مد مقابل فریق کے ساتھ دشمنی۔ اب اگر معاشرے میں اس معاملے کو یکساں لیا جائے چاہے وہ مرد ہو یا، عورت تو میرے خیال سے خلاف طبع کوئی مرد کسی عورت کی طرف بڑھ نہیں سکتا کیونکہ عورت بلا خوف خطر اپنی نا پسندیدگی کاظہار کر سکتی ہے۔

عورت کے ساتھ وابستہ بہت سارے قدیم جذبات نے عورت کی زبان کو سلب کر لیا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ تعلیم اور وقت کی ترقی نے ہمارے سماج کو سابقہ پستیوں سے نکالا ہے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ایسے اعدادو شمار ابھی بھی بہت بڑی آبادی کی ترجمانی نہیں کر سکتے۔ شہروں میں بھی خواتین کے لئے آزادانہ حرکت اتنی بے فکری سے نہیں ہوتی، جتنی کہ ہونی چاہیئے۔ کیونکہ آنکھوں کے سکینر سے ان کے جسمانی خدوخال کو بڑے انہماک سے گزارا جاتا ہے۔ لیکن ایسے واقعات کو وہ بتانے سے اس لیئے کتراتی ہیں کہ پھر مزید سختی اور بندش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خاص کر وہ خواتین جو پبلک ٹرانسپورٹ پہ اکیلے سفر کرتی ہیں یا پھر کہیں کام کرتی ہیں۔

ملک میں موجودہ سیاسی قائدین کے جنسی سکینڈل پہ بحث اور اس پہ بحیثیت قوم ہمارے چسکے اس بات کا ثبوت ہیں۔ ہمارے مشاغل میں سب سے اہم مشغلہ جنسی لطیفے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں کی بڑی تعداد اپنے مسائل کو چھپانے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہیں۔ ہم بحثیت قوم اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جنسی وار مد مقابل فریق کے لئے بہت سے مسائل پیدا کرے گا۔ بس اسی اطمینان قلب کے لیئے ہم ایسی تشہیری مہم اور کردار کشی کو اپنا فرض سمجھ کے پورا کرتے ہیں۔

دو طرفہ جنسی حملوں میں کونسے مفادات حاصل ہوں گے یقینا، وہ وہی اخلاقی معیار ہیں کہ جن کی سند حاصل کرنے کے بعد آپ ایک پارسا قائد بن کے پھر سے عوامی حقوق کی جنگ کا طبل بجائیں گے۔ لوگوں کی حمایت حاصل کریں گے لوگ اپنے اپنے من کے چوروں کی ہنسی نہیں سن پاتے۔ وہ اپنے اندر کے حقیقی اعتراض کو زبردستی دبا دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود جیسے بھی ہوں مگر انہیں پارسا قائد چاہیئے جو پس پردہ ان کی طرح ہر عیب کا شکار رہے مگر ظاہری طور پہ بے داغ ہو۔ سچ کہوں تو بے داغ ہونے کے دعوے کرنے والوں کے صرف لباس ہی بے داغ ہوتے ہیں۔ یہ جو اتنے بلند معیار طے کئے جاتے ہیں یہ صرف زبان کا دھوکہ ہے ورنہ اکثریت کو پاکیزگی کا حقیقی غسل درکار ہے اگر نہیں یقین تو عورتیں دیکھ کر کئی مردانہ آنکھوں کی بھوک صاف نظر آتی ہے۔

بات صرف اتنی ہے کہ کردار، عزت اور غیرت سے جو کچھ بحثیت مرد ہم نے منسوب کر رکھا ہے اس کو شاید ایک نظر دیکھنا چاہیئے، پھر طے کرنا چاہیئے کہ جنسی خبروں کے اشتہار ہم میں سے کسی کو زیب نہیں دیتے۔ یہ دو افراد کا مسئلہ ہے، انہیں کسی فورم پہ موقع دیں کہ اس سارے واقعے میں کس قدر زیادتی ہوئی ہے۔ محض اخلاقی ڈھال بنا کے دو افراد کے مابین مسئلے کو اس بیہودگی کے ساتھ نشر کرنا اور پھر اس پہ کوئی منطقی رائے دینے کی بجائے صرف گالم گلوچ کے وار کرنے سے پارسائی قائم نہیں ہوتی۔ ہم سب کو اپنے اندر کی حقیقتوں کا سامنا کرنا چاہیئے پھر شاید ہی ہم انگلی اٹھا سکیں۔ جنسی معاملات اور اس کے لئے سماجی رویوں پہ بات چیت کیئے بغیر ہم ایک ٹھوس حقیقت سے انکار کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں مگر ہماری غیر ضروری احتیاط اور تشہیری تاریخ لوگوں کو بولنے نہیں دیتی۔ جنسی نوٹنکی کے تماش بین تو بہت ہوتے ہیں مگر جب عزت اور غیرت کے فتوے دینے ہوں تو ہم سب مفتی بھی ہیں۔ ہم گیلے کو سائے میں سکھا لیتے ہیں مگر دھوپ سے بچاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).