سول ملٹری تصادم: قومی مفاد کا رکھوالا کون


 وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ کہہ کر کہ آرمی چیف کو ملک کی معیشت کے بارے میں بات کرنے کا حق حاصل ہے، اس تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جو گزشتہ ہفتہ کے دوران کراچی کے ایک سیمینار میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر کے بعد شروع ہوا تھا۔ آرمی چیف نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں پر کام آگے بڑھا ہے لیکن انہوں نے ملک پر بڑھتے ہوئے قرض پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آمدنی میں اضافہ کی ضرورت پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ ملک میں ٹیکس دہندگان کی شرح میں اضافہ ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک کے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی وہی مشورہ دیا تھا جو کچھ عرصہ قبل وہ امریکہ اور دنیا کو دے چکے تھے کہ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف اپنے حصے کا کام بخوبی سرانجام دیا ہے اب معاشرے کے باقی شعبوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ملکی معیشت مضبوط ہو سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ معاشی صورتحال اور ملکی سلامتی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس تقریر پر تو دبے لفظوں میں چند ہی حلقوں کی طرف سے حرف زنی ہوئی تھی کہ کیا اب قومی سلامتی اور خارجہ امور کے بعد فوج ملک کی معیشت کے اہم فیصلے کرنے کا اختیار بھی خود ہی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ تاہم جب آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ ملک کی معیشت اگر مکمل طور سے تباہ حال نہیں تو وہ مستحکم بھی نہیں ہے تو وزیر داخلہ احسن اقبال نے امریکہ میں ہونے کے باوجود سخت لفظوں میں میجر جنرل آصف غفور کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ انہیں ایسے بیان دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ اس سے ملک کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اس تنقید کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ تنازعہ سول ملٹری اختلاف کے کھلم کھلا اظہار کی صورت اختیار کر گیا۔

اگرچہ احسن اقبال نے میجر جنرل آصف غفور کے جوابی بیان پر تبصرہ سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اس کا جواب الجواب ضروری نہیں لیکن وہ اس بات کی وضاحت نہیں کر سکے کہ انہیں آخر فوجی ترجمان کے بیان پر امریکہ سے اس قدر سخت ردعمل دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ جس سے یہ تاثر ملے کہ سول حکومت اور فوج کے درمیان مسلسل تناؤ کی کیفیت ہے۔ اور اب سیاسی حکومت طے کر چکی ہے کہ وہ فوج کی ہدایت اور مشورے کو قبول نہیں کر سکتی۔ احسن اقبال کے لئے صبر کا گھونٹ پینے کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔ ایک تو کہ یہ وہ ملک میں داخلی امور اور امن و امان کی ذمہ دار وزارت کے سربراہ ہیں، ان کا معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ خود امریکہ میں موجود تھے، اس لئے آسانی سے ملک میں ہونے والے مباحث اور چہ میگوئیوں کو نظر انداز کر سکتے تھے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اسلام آباد میں ہی موجود تھے۔ وہ نواز شریف اور فوج کے درمیان رابطہ کار کا کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں اور بہتر جانتے ہیں کہ کس وقت فوج کے کس بیان یا تقاضہ پر کیسا ردعمل دینا ملک کے علاوہ حکومت کے مفاد میں ہوگا۔

احسن اقبال سے خاموشی کا تقاضا یا امید اس وجہ سے بھی کی جا سکتی تھی کہ انہیں نواز شریف کا معتمد اور حکومت کا اہم وزیر ہونے کی حیثیت سے پتہ ہونا چاہئے کہ پاناما کیس کے تناظر میں سامنے آنے والے منظر میں خواہ جیسا بھی تند و تیز لب و لہجہ اختیار کیا جائے اور عدلیہ کے کاندھے پر رکھ کر نشانہ لگانے کے علاوہ اشاروں کنایوں میں خواہ کیسی ہی سیاسی باتیں کی جائیں لیکن مسلم لیگ (ن) بہرصورت ملک کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ اسے بہرحال اس کے ساتھ ہی مل کر چلنا ہے۔ ورنہ نواز شریف نے اگر احتجاج کو تصادم کی شکل دینا ہوتی تو وہ مرکز اور پنجاب و بلوچستان میں اپنی حکومتوں کو ختم کرکے ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کر سکتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) انتخاب کو سول بالا دستی یا فوجی تسلط کے سوال پر ریفرنڈم کا درجہ دے سکتی تھی اور یہ واضح کر سکتی تھی کہ ملک کے عوام اگر اپنے منتخب نمائندوں کو بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر ان کی خواہش ہے کہ حقیقی جمہوری اصولوں کے مطابق ہی ملک کے معاملات طے ہوں اور پارلیمنٹ ہی تمام اہم فیصلے کرنے کی مجاز ہو تو عوام اس ایک نکاتی ایجنڈے پر مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیں۔

نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ایسا اعلان ملک میں سیاسی فضا کو مکدر ہونے سے بچا سکتا تھا اور یہ بھی واضح کر سکتا تھا کہ نواز شریف اب واقعی نظریاتی سیاستدان بن چکے ہیں۔ ایک نظریاتی سیاستدان بعض اصول متعین کر کے ان پر قائم رہنے کی بات کرتا ہے۔ اس کی سیاست واضح اور دو ٹوک ہوتی ہے۔ اس میں لین دین، سودے بازی اور درپردہ مفاہمت کا دروازہ کھلا رکھنے کی ضرورت اور گنجائش بھی نہیں ہوتی۔ نواز شریف نے ایسا فیصلہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ اگرچہ سیاست پر گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں اور پارٹی کا اختیار اور آئندہ قیادت کا فیصلہ بھی خود ہی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ علی الاعلان یہ بات کہنے سے گریز بھی کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہر سیاسی پارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) بھی ایسے سیاستدانوں کا گروہ ہے جو بہرطور اقتدار کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ اس عمل میں مطمح نظر اقتدار اور حکومت سازی ہوتا ہے، کوئی جمہوری یا اخلاقی اصول پیش نظر نہیں ہوتا۔ ایسی سیاست کرنے والے خود کو نظریاتی نہیں کہہ سکتے۔ یا اگر نواز شریف کی طرح یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو ان کے عملی اقدامات ان کی باتوں کو رد کر رہے ہوتے ہیں۔

احسن اقبال نے ان سب پیچیدگیوں کے ہوتے ہوئے بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کو چیلنج کرنے اور فوج کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ سول حکومت معیشت کے سوال پر فوج کی ہدایت اور مشورے کی محتاج نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیان دیتے وقت ایک سیاستدان کی طرح ان کے پیش نظر صرف رائے عامہ تھی۔ وہ خود کو عوام کی نظر میں فوج کے سامنے ڈٹ جانے والے سیاستدان کے طور پر تسلیم کروانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے عجلت میں جاری کئے گئے بیان میں یہ غور نہیں کیا کہ فوج کا اس پر کیا ردعمل ہوگا اور سول حکومت کیسے اس دباؤ کو برداشت کر سکے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ سیاسی لڑائی اور تصادم کی کیفیت کے باوجود نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) نہ تو فوج سے تصادم کا تصور کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خود یہ وضاحت کرنا پڑی ہے کہ ملک کی معیشت پر ہر شخص بات کرتا ہے۔ اسی طرح آرمی چیف نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح حکومت نے اعلیٰ ترین سطح پر فوج کے ساتھ ’’سیز فائر‘‘ کا اعلان کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران رونما ہونے والے دیگر چھوٹے بڑے واقعات کے علاوہ احسن اقبال کی تلخ نوائی فوج کے ساتھ موجودہ حکمران جماعت کی دوری میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔ اگرچہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کوئی غیر آئینی اقدام کرنے یا براہ راست اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن ملک کے سیاسی حالات پر اثر انداز ہونے کے لئے فوج کے پاس ایک سے زیادہ آپشنز موجود رہتے ہیں۔ خاص طور سے ایک ایسے ملک میں جہاں سیاستدانوں کا ہدف کسی سیاسی پروگرام کی تکمیل نہ ہو بلکہ اقتدار کا تسلسل یا حصول ہی اصل مقصد ہو۔ اسی لئے ملک میں سول حکومت کے حوالے سے مسلسل افواہوں، اندازوں اور اندیشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نواز شریف کی سیاسی و عدالتی مشکلات کی وجہ سے ان اندیشوں میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے اخبارات اور ٹاک شوز میں روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں اور معلومات فراہم کی جا رہی ہیں جن سے حکومت کو رخصت کرنے اور نواز شریف کی سیاسی صلاحیت کو محدود کرنے کے حوالے سے عوام کو باخبر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس صورتحال سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ سیاسی حلقوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے بااثر لوگ اس وقت یہ خبریں عام کر کے ہی یہ اندازہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا اگلا قدم کیا ہونا چاہئے۔ یا ذرائع ابلاغ کے ان ’’باخبر‘‘ صحافیوں کے ذریعے ایک دوسرے کو پیغام پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں رپورٹوں اور کالموں میں چونکا دینے والی معلومات اور تازہ ترین خبر دینے کی خواہش رکھنے والوں کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے اور اقتدار کی سیاست میں اپنی پوزیشن کا تعین کرنے والے بھی اپنا مقصد حاصل کرتے رہتے ہیں۔ ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا نے جس طرح اہمیت حاصل کی ہے، اس کی وجہ سے اب یہ ہتھکنڈے عام بھی ہو چکے ہیں اور ان کا استعمال بھی کثرت سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اس صورتحال میں مشکل سے صرف ملک کے عام شہری ہی دوچار ہوتے ہیں جو نہ یہ جانتے ہیں کہ کس بات کو درست تسلیم کریں اور نہ یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ ملک میں آئندہ کیا ڈرامائی صورتحال پیش آنے والی ہے۔ دیگر مشکلات کے علاوہ یہ بے یقینی عوام کے مصائب میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے سول حکومت ہو یا فوج کی قیادت ۔۔۔ ان پر یکساں طور سے یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں اقتدار کی بندر بانٹ کے لئے جو بھی داؤ پیچ استعمال کریں، ان کے ذریعے کم از کم عام لوگوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ لیکن ماضی کے تجربات اور صورتحال کی پیچیدگی کی وجہ سے یہ توقع دیوانے کا خواب ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ اس وقت ملک کے اقتدار کے علاوہ اس علاقے میں رونما ہونے والی سیاسی و معاشی تبدیلیاں بھی اس کھینچا تانی میں اضافہ کا سبب بن رہی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کو داؤ پیچ کی اس سیاست میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ایک طرف امریکہ اور چین ون بیلٹ ون روڈ کی اہمیت اور اثرات کے حوالے سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں اقتدار کے اہم ترین مراکز سی پیک کے مثبت اثرات کا کریڈٹ وصول کرنے یا ان پر کنٹرول بحال رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ عوامی نقطہ نظر اور ملک کے وسیع تر مفاد میں تو یہی ہوگا کہ سارے فریق بعض بنیادی اصولوں پر متفق ہو جائیں تاکہ انہیں باہمی لڑائیوں سے علیحدہ رکھا جا سکے۔ اس طرح ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے دیگر ممالک اور عالمی اداروں سے معاملات طے کرنا بھی آسان ہوگا۔

تاہم یہ طے کرنے کے لئے ریاست کے تمام اداروں کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کو بھی یہ اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا کہ قومی مفاد کے منصوبوں کو سیاسی چپقلش اور پوائنٹ اسکورنگ کا حصہ نہ بنایا جائے۔ موجودہ صورتحال میں جاری سیاسی چپقلش میں ایسا اتفاق رائے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اسی لئے تناؤ کی خبریں بھی سامنے آتی رہیں گی اور یہ نعرہ بھی بلند ہوتا رہے گا کہ ملک میں جمہوریت کو خطرہ ہے۔ حالانکہ اس بے یقینی میں قومی مفاد کے حامل بعض قومی معاشی منصوبے بھی زد میں آ سکتے ہیں۔ لیکن فی الوقت متحارب گروہوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali