تاج محل اور ٹرک کی بتی


ذرا اس پر بھی غور کیجیے گا کہ گودھرا میں اچانک سے ہندو یاتریوں سے بھری صابر متی ایکسپریس کو چند باؤلے مسلمان خوامخواہ کیوں پھونک دیتے ہیں؟ مظفر نگر میں کوئی مسلمان ایک دن کسی ہندو لڑکی کو کیوں چھیڑ دیتا ہے جس سے ہندو جاٹ اتنے اشتعال میں آ جائیں کہ ہمسائیوں کی املاک ہی پھونک ڈالیں؟ ’لو جہاد‘ کے خلاف تند و تیز مہم یکدم کیوں شروع ہوتی ہے اور کیوں کچھ عرصے کے لیے دب جاتی ہے؟

‘گھر واپسی‘ آندولن چند دنوں کے لیے کیوں اٹھتا ہے؟ کچھ کرسچیئن اور مسلمان پھر سے ہندو ہو جاتے ہیں اور باقی ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔ دادری کے اخلاق احمد کے فریج سے کسی بھی دن گائے کا گوشت کیوں برآمد ہو جاتا ہے؟ اڑیسہ کے کاندھامل ضلع میں سکون سے بیٹھے بٹھائے کرسچیئنوں نے ایسا کیا کیا ہوتا ہے کہ ان کے گرجوں کو آگ لگ جاتی ہے اور پھر اس کے بعد مچی بھگدڑ سب بھول جاتے ہیں۔

اگر یہ ’اچانک پن‘ سمجھ میں نہیں آ رہا تو ایسا کیجیے کہ اپنی دیوار پر لگے کیلنڈر میں ان تاریخوں پر لال نشان لگا لیجیے جب کوئی قومی، صوبائی یا مقامی الیکشن ہونے والا ہو اور پھر آنکھیں بند کر کے نفرت کی دیگ گرم رکھنے والے واقعات کی آس پاس کی تاریخیں دیکھیے۔ رفتہ رفتہ آپ پر کھلتا جائے گا کہ کس واقعے کا تعلق کس سیاسی یا انتخابی ہدف سے جڑا ہوا تھا یا ہے۔

انڈیا سے ان دنوں تواتر سے خبر آ رہی ہے کہ معیشت کی حالت اچھی نہیں اور یہ بات صرف نریندر مودی کے روایتی ناقد نہیں بلکہ سابق واجپائی حکومت کے وزیرِ خزانہ و خارجہ یشونت سنہا اور میڈیائی نظریہ ساز ارون شوری جیسے پائے کے لوگ کہہ رہے ہیں۔

کالے دھن کی روک تھام کے لیے ہزار اور پانچ سو کے نوٹوں کی منسوخی سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ تو پوری نہ ہو سکیں اور ساری دولت پھر سے بینکوں میں آ گئی البتہ چھوٹا کاروباری اور مزدور تب سے مسلسل چیخ رہا ہے کہ زور کا جھٹکا ہائے زوروں سے لگا۔

مزید براں قومی سطح پر جنرل سیلز ٹیکس کی فارسی بھی کسی کے پلے نہیں پڑ رہی۔ ہر سال ایک کروڑ سے اوپر نئے نوجوان ملازمت کی مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ مودی جی نے ووٹ لیتے سمے بےروزگاری کے خاتمے کا جو سپنا دکھایا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تین برس میں لگ بھگ چار لاکھ باقاعدہ ملازمتیں ہی پیدا ہو پائیں۔
اس پورے عرصے میں انڈین میڈیا یک زبان ’مودی مہاراج کی جے ہو‘ کہتے کہتے اب دبے دبے لفظوں میں چرمرانے لگا ہے کہ ’اچھے دن‘ کی گاجر شاید اگلے عام چناؤ کے بعد ہی کھانے کو ملے۔ صحافی گوری لنکیش کا قتل بہت غلط وقت پر ہوا، ہماچل اور گجرات میں انتخابات کی تلوار سر پر ہے۔

مودی کے گجرات میں اگر بی جے پی نہ بھی ہارے مگر کم اکثریت سے جیتے تو یہ نتائج بھی سنگھ پریوار کے بلڈوزرانہ نظریاتی و سیاسی سفر کو آہستہ کر سکتے ہیں لہذا من جملہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ضرورت ہے کہ ایسے ہوائی مسائل ایجاد ہوتے رہیں کہ لوگوں کی آنکھ سرکار کی روز بروز متنازع کارکردگی سے ہٹی رہے۔
پاکستان، کشمیر اور دہشت گردی جیسے موضوعات سے حاصل ہونے والی ٹی آر پی اپنی جگہ مگر کچھ نیا بھی چاہیے چنانچہ اب یہ بحث تو بنتی ہے کہ مغلوں کا انڈین تاریخ میں کیا مقام ہے اور ان کی قائم کردہ یادگاروں اور تاج محل جیسے شاہکاروں کو قومی نشانی مانا جائے یا لٹیروں کی میراث سمجھ کے پرے پھینک دیا جائے۔

چنانچہ ایک کونے سے یوگی آدتیہ ناتھ بولتا ہے تو دوسرے کونے سے کوئی سوم سنگیت الاپ پکڑ لیتا ہے۔ جب حسبِ منشا اصل مسائل پر بحث کا رخ کچھ دنوں کے لیے مڑ جاتا ہے تو پھر مودی جی یا ان کا کوئی ترجمان اعتدال پسندی اختیار کرنے کا ٹویٹ کر دیتے ہیں۔ چند دن خاموشی رہتی ہے اور پھر پٹاری سے کوئی نیا تنازع نکل آتا ہے۔ کل بابری مسجد تھی، آج تاج محل ہے، کل کچھ اور آ جائے گا۔

اہم بات یہ ہے کہ کون سا پنچنگ بیگ کس وقت کام آ سکتا ہے؟ ہٹلر کو اقتصادی بدحالی تلے دبی جرمن قوم کو کوئی کھلونا تو دینا تھا لہذا اس نے یہودی مسئلہ اور آریائی برتری کا خیالی تصور تھما دیا، مسولینی کو قوم کی خاطر لمبے عرصے اقتدار میں رہنا تھا لہذا اس نے بحالیِ عظمتِ رومتہ الکبری کی نشیلی بوتل اطالویوں کو پکڑا دی اور ایسی لے کاری کی کہ اپنے علامہ اقبال بھی مسولینی کے چکر میں آ گئے۔

سنہ 1917 ہو یا 2017 آج بھی وہی جذبات ابھار گیدڑ سنگھی کام آ رہی ہے۔ آپ دیکھیے کہ بریگزٹ میں برطانوی ووٹروں کے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا۔ اس کے بعد مداری تو تھیلا کندھے پر ڈال چلتا بنا اب برطانوی جنتا جانے اور یورپی یونین جانے۔

سمندر پار ٹرمپ نے ’امریکہ کو دوبارہ عظیم تر بنائیں گے‘ کا صور کیا پھونکا کہ ایک خلقت پیچھے ہو لی۔ اب خود رپبلکن کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ جن بوتل میں واپس کیسے جائے گا؟
فسطائیت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ طاقت یا ووٹ کے بل پر لوگوں کے کندھوں پر سوار اندر تو آ جاتی ہے مگر جب جاتی ہے تو ایک بوٹی کے عوض پورا بکرا لے کے ٹلتی ہے۔
خدشہ یہی ہے کہ اگر انڈیا میں سنگھ پریوار کو لگا کہ اس کا سحر کشش کھو رہا ہے تو پھر اگلے دو برس میں بہت سے تاج محل، بہت سے تاریخی لٹیرے اور بہت سے غدار سیاست کے چرنوں میں بھینٹ کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔

پاکستان میں بھی جب بات بگڑنے لگتی ہے تو گودام سے احمدیوں، لبرل فاشسٹوں، این جی اوز، غیر ملکی ایجنٹوں اور شیعوں کو حسب ِ ضرورت نکال کے بیچ لیا جاتا ہے۔ یہ وہ مال ہے جسے دنیا کے کسی بھی ملک میں زیادہ دیر شیلف میں نہیں رکھا جا سکتا۔ تازہ بنتا ہے، تازہ بکتا ہے اور تازہ تازہ ہی کھایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).