ہائے اس اختیار کی بے اختیاری


یہ رونا آخر کب تک سنا جائے کہ پاکستان میں ریاستی اختیار کترا جا چکا ہے اور ریاست ہی چاہے تو اسے بحال کر سکتی ہے اور جب تک بحال نہیں ہو گی تب تک قانون کی حکمرانی خواب رہے گی۔

عرض یوں ہے کہ خدا کو چھوا تو نہیں جا سکتا لیکن مختلف شکلوں میں محسوس ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح ریاستی اختیار نام کی شے آپ کو کسی ٹھیلے پر نہیں ملے گی۔ لیکن اگر اسے سب دل سے مان لیں تو پھر وہی رٹ ہماری اجتماعی و انفرادی زندگی میں ہر طرف دکھائی دے گی۔ آئینِ پاکستان کی پہلی شق میں صاف صاف ہے کہ اختیارات کا سرچشمہ خدائے برتر ہے اور ریاست یہ اختیارات امانتاً منتخب نمایندوں کے توسط سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی مجاز ہے۔ یعنی خدائی اختیار ہی ریاستی اختیار ہے۔ اور خدا صرف قہار و جبار ہی نہیں رحمان و رحیم بھی ہے۔ پھر بھی سب پوچھ رہے ہیں کہ اختیار کہاں ہے؟

شاید اس موٹر سائیکل سوار کے پاس ہے جو کسی بھی چوک پے باوردی کانسٹیبل کی شکل میں کھڑی ریاست کو دھتا بتاتے ہوئے یوں سگنل توڑتا ہے گویا کفر توڑ رہا ہو۔ یا شاید اسٹیٹ رٹ ڈسکہ کے ان چار لوگوں کے پاس ہے جنہوں نے اپنی بیٹی اور ناپسندیدہ داماد کو بیسیوں لوگوں کے سامنے دن دھاڑے کھمبے سے باندھا اور دونوں کے سر اتار کے خنجر سے لہو ٹپکاتے آرام سے چلے گئے۔

تماشائی یہ بات سوچنے سے ہی عاری ہیں کہ انھوں نے دو انسانوں کی شکل میں دراصل ریاست اور عدالت کا سر اتارے جانے کا منظر دیکھا ہے۔ یا پھر اسٹیٹ رٹ اس سادہ کپڑوں والے کی داشتہ ہے جو کسی بھی شہری کو جیپ میں ڈالنے کا خود ساختہ حق رکھتا ہے اور پھر نہ شہری کا پتہ ملتا ہے نہ سادے کپڑوں والے کا۔ یا پھر وہ سیکڑوں لوگ ریاست ہیں جو قصور کے ایک بھٹے میں عیسائی جوڑے کو جھونکنے کے دوران وہاں کھڑے رہے۔ یا پھر ممتاز قادری اور اس پر گل پاشی کرنے والوں کے پاس ہے۔

رٹ کسی زمانے میں بس ریاست کے پاس ہوا کرتی تھی، لگتا ہے اب ریاست نے اس کی بھی نجکاری کرکے اپنا اختیار اٹھارہ کروڑ شیئرز میں بانٹ کے بیچ دیا تا کہ ریاست کو دیگر ضروری کاموں کے لیے وقت مل سکے۔ جب کہ مغربی ممالک کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہاں ریاست کا مکھٹ تو برقرار ہے لیکن ریاست دراصل کارپوریٹ مفادات کی فرنٹ کمپنی بن چکی ہے۔
لیکن روزمرہ زندگی میں ریاستی اختیار کیسے کیسے اور کن کن چھٹ بھیؤں کے ہاتھوں بے آبرو ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں آپ روزانہ کئی کئی مرتبہ کئی کئی شکلوں میں دیکھ دیکھ کر اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب کوئی پامالی پامالی نہیں لگتی۔

مثلاً ملاوٹ خدا کو ناپسند ہے اور ریاست کو بھی۔ لیکن خدائی اور حب الوطنی کا دم بھرنے والے ہی جانے سب کو کیا کیا کس کس نام سے ہم سے ہی پورے پیسے لے کر ہمی کو کھلا پلا رہے ہیں اور ریاست بس استغفراللہ کا ورد کرتی جا رہی ہے۔

خیانت خدا کے نزدیک بھی حرام اور ریاستی آئین کے تحت بھی جرم۔ مگر کون سا ایسا شہری یا ادارہ ہے جو خیانت کے انفرادی و اجتماعی اثرات سے بچ پایا۔ یا تو آپ خائن ہے یا پھر خیانت گزیدہ۔ گزشتہ سے پیوستہ برس میں کرپشن کے تین ہزار اکتالیس مقدمات میں سے صرف چوبیس کا فیصلہ ہو سکا۔ رشوت لے کے پھنس گیا ہے رشوت دے کے چھوٹ جا۔ ( یہ ضرب المثل مغربی نہیں مشرقی ہے)۔

چودہ سو سے زائد برس سے کہا اور سنا جا رہا ہے کہ خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا۔ مگر مملکتِ خداداِد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسی فیصد آمدنی بیس فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی اسی فیصد لوگ بیس فیصد پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ٹیکس وصولی کی شرح میں یہ ریاست ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔

جو سب سے زیادہ ٹیکس کھانے والے ہیں وہی باقیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا ایک دوسرے پر تو بس نہیں چلتا اس لیے تنخواہ داروں اور مٹی کے تیل پر گزارہ کرنے والوں پہ مالیاتی مردانگی اتاری جاتی ہے۔ ( میں ناچیز جو نہ کسی تین میں نہ تیرہ میں ہر سال وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف اور ان کی پارٹی کے سربراہ سے زیادہ انکم ٹیکس دیتا ہوں)۔
جھوٹ، غلط بیانی اور آدھا سچ نہ خدا کے ہاں حلال ہے نہ کسی ریاستی کتاب میں اجازت۔ لیکن جھونپڑی سے محل تک، ٹھیلے والے سے پیش امام تک، بچے سے حکمرانِ اعلیٰ تک ہے کوئی جو جھوٹ کی سلطنت سے باہر ہو۔

قتلِ عمد کس مذہب یا قانون میں جائز ہے؟ کیا اس کی خدائی اور ریاستی سزا انتہائی سخت نہیں؟ اس سے زیادہ کوئی اور کیا کہے کہ جس نے کسی کو ناحق قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ مگر خدا کا نام لینے والی ریاست ہو کہ خدا کا دم بھرنے والے لوگ۔ ان سب کے کانوں سے روئی کون نکالے؟

ریپ کی کوئی فاسق و فاجر بھی وکالت نہیں کرتا۔ اس پاکستان میں اینگلو سیکسن لا، قوانینِ حدود اور جرگہ روایات تک کون سا قانون لاگو نہیں۔ مگر پچھلے پانچ برس میں ریپ کے ایک ملزم کو بھی سزا نہیں مل پائی۔ (اس سے اور کچھ ہو نہ ہو انفرادی و اجتماعی پاک بازی، پرہیز گاری اور غیر جانبداری کے معیار کو ضرور اندازہ ہو سکتا ہے)۔

دہشت گردی کو خدائی لغت میں فتنہ اور فساد فی الارض کہا گیا ہے اور سزا ایک ہی ہے۔ قلع قمع۔ دھشت گردی ریاستی رٹ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ لیکن جو شکار ہیں وہی اس کی فارمنگ بھی کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ دنیا گول ہے، جو برآمد کرو گے وہی شے لوٹ پھر کے گھر آئے گی۔ تو پھر مصر تا بنگلہ دیش، شام تا یمن یہ چیخ و پکار و احتجاج کاہے کو؟

ریاست کفر پے تو زندہ رہ سکتی ہے بے انصافی پر نہیں۔ اس پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں کوئی ایسا شخص جو کہہ سکے کہ وہ انصاف کے نافذ و جاری نظام سے زیادہ نہیں مگر تھوڑا بہت ضرور مطمئن ہے۔ ریاستی اختیار انصاف کے ستون پر کھڑا ہوتا ہے۔ کیا کسی کو ستون دکھائی دے رہا ہے؟ بس جتنا دکھائی دے رہا ہے اتنے ہی ریاستی اختیار پر اکتفا کیجیے۔

اس دنیا میں کوئی اکثریت میں نہیں۔ سب اقلیت ہیں۔ کہیں ایک گروہ تو کہیں دوسرا گروہ۔ اسی لیے تمام مذاہب اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق و فرائض واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ دعوے سب کے اپنی جگہ لیکن دنیا پر کوئی نظریہ آج تک پورا غالب نہیں آ سکا نہ فوری امکان ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ تمہارے لیے تمہارا راستہ میرے لیے میرا۔ یہی پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ ہے۔ مگر اس کا کیا کریں کہ انسان سب سے آسان بات سب سے زیادہ مشکل سے سمجھتا ہے۔

عقیدے کے بدلاؤ کے لیے تبلیغ کی تو اجازت ہے، جبر، ترغیب و تحریص، دھمکی یا خاص اہداف اور مفادات ذہن میں رکھ کے ایسی قانون سازی کی اجازت نہیں جن کی زد میں آ کر ریاست کا کوئی بھی گروہ سیاسی، مذہبی یا سماجی طور پر درجہ دوم کا شہری بن جائے۔ تلوار کی نوک گردن پے رکھ کے عقیدہ بدلوانے کی اجازت نہیں۔ اپنوں یا غیروں کی عبادت گاہیں ڈھانے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں۔ سوائے اپنے دفاع کے کسی کو عقیدے، رنگ، نسل کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی زک پہنچانے کی اجازت نہیں۔ لیکن کیا خدائی قوانین کی مسخ شدہ تشریح کو کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی۔

کیا ریاست اس نفرت پرور کھیل میں فریق ہے یا غیر جانبدار؟ کیا فوجداری و دیوانی قوانین کی نوعیت ایسی ہے کہ ریاست کا ہر شہری دل سے خود کو اس سرزمین کا فرزند سمجھے اور اس کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ کیا خدا کی جانب سے اس شاخسانے کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے۔ کیا سب لوگ (بالخصوص صاحب الرائے حضرات) واقعی آسمانی احکامات کو ایک بڑی اور مکمل تصویر کے طور پر دیکھنے، پڑھنے اور ان میں پوشیدہ حکمتی اشارے سمجھنے کے قابل ہیں یا پھر اپنی اپنی پسند کے احکامات کو آدھا پورا بیان کر کے اس تشریح کو شریعتِ خدا کہنے اور منوانے پر تلے بیٹھے ہیں۔
جب تک ان سوالات کا کوئی متفق علیہ عقلی جواب نہیں ملتا۔ ریاستی رٹ کو روتے رہیں اور فرضی گتھیاں سلجھاتے رہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).