مریم نواز کی ٹویٹ سے جڑی یادیں


 مریم بی بی کا ٹویٹ دیکھا، جس میں وہ سابق باوردی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے والد پر عائد ہونے والی فرد جرم کو یاد کر رہی تھیں، کہ کیسے انہیں اور ان کی والدہ پشاور کے ایک جلسے میں یہ خبر سننے کو ملی تھی۔ اس موقع پر اور آج اس دن کو یاد کرتے ہوئے ان کے جذبات کیا تھے، اس بارے میں مریم بی بی نے وضاحت نہیں فرمائی لیکن ان کے اس ایک ٹویٹ سے اور بہت سے ٹویٹ اور واقعات یاد آ گئے۔

یاد آیا کہ کس طرح 12 اکتوبر کے فوراً بعد کارکنوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ قیدیوں کی گاڑی کی کھڑکی سے جھانکتے میاں صاحب کی مایوس کن تاثرات والی تصویر یاد آئی اور پھر وہ خبر یاد آئی کہ جب اچانک یہ معلوم ہوا کہ میاں صاحب ایک ڈیل کے نتیجے میں اہل خانہ سمیت سعودی عرب روانہ ہو گئے ہیں۔

مخالفین نے اسے میاں صاحب کی کمزوری، عیش پرستی اور خود غرضی سے تشبیہہ دی تو یاروں نے اسے شاطر شخص کا بچھایا ہوا ایک جال قرار دیا جس کا مقصد پاکستان کی عوام کو ان کے نجات دہندہ سے دور کر دینا تھا اور جس میں وہ کامیاب رہا۔ اس ڈیل کی حقیقت اب اگرچہ روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے لیکن اس وقت بھی یہ ڈیل مسلم لیگ نون کے کارکنوں میں مایوسی کا سبب بنی تھی۔ ایک طرف کارکن جرات کے ساتھ آمر کو للکار رہے اور جیلیں بھر رہے تھے تو دوسری طرف ان کے محبوب لیڈر برادر اور دوست ملک کی خواہش پر اس “فرینڈلی کڈنیپ” کا حصہ بن کے شاہ کی میزبانی کے مزے لوٹ رہے تھے۔

مریم بی بی کے اس ٹویٹ سے کارکنوں کو جیلوں میں سڑتا چھوڑ کے سعودی عرب روانگی ہی یاد نہیں آئی بلکہ گزشتہ چند روز کے اندر اٹھائے جانے والے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ بھی یاد آئے جن کا تعلق بھی مسلم لیگ نون سے ہی بتایا جارہا ہے۔

ٹویٹر کی زبانی تاحال تین ایسے مائیکرو بلاگرز کی خبر مل چکی ہے جو لاپتہ ہیں۔ ایک انیحہ انعم چودھری کا احوال معلوم ہوا جو ایف آئی اے کے چکر میں پھنس چکی ہیں اور اب ادارے کے چھاپے کے بعد انصاف کے لئے دہائیاں دیتی پھر رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر مخالفین کی خبر لینے کے لئے مروجہ طریقوں میں موثر ترین گستاخی کا الزام اور پاک فوج کی توہین کرنے کا الزام لگانا ہے، سو انیحہ بھی اسی گھنائونے کھیل کا حصہ بن چکی ہیں اور ان کے نام پر فیک اکائونٹس سے پاک فوج کی مخالفت اور ملک دشمنی پر مبنی اکائونٹ دھڑا دھڑ شیئر کیا جارہا ہے، اور خود انیحہ “ون سٹیٹ ون لاء” کا دبنگ بیان داغنے والے وزیر داخلہ احسن اقبال صاحب کو انصاف کے لئے دہائیاں دے رہی ہیں۔

گزشتہ روز گرفتار ہونے والے انوار عادل تنولی کے بارے میں بھی تاحال محض یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ انہیں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اب ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے، یہ تو آنے والے دنوں میں ہی واضح ہوگا لیکن مریم بی بی سے پوچھنا یہ تھا کہ وہ مسلم لیگ جو چند روز قبل تک اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو ہیرا قرار دے رہی تھی، اب ان کی گمشدگیوں پر خاموش کیوں ہے؟ چند روز قبل تک یہی سوشل میڈیا ٹیم مخالفین پر حملوں کے لئے آپ کا سب سے بڑا ہتھیار تھی مگر اب انہی جوشیلے کارکنوں سے یہ کہہ کے جان چھڑائی جارہی ہے کہ گالیاں دیں گے تو بھگتنا تو پڑے گا۔

مریم بی بی کے ٹویٹ سے ہی انوار عادل تنولی کا ٹویٹر اکائونٹ یاد آیا۔ یاد آیا کہ کس طرح وہ میاں صاحب کی ریلی کی شکل میں لاہور آمد کے موقع پر دن رات ٹویٹس کررہے تھے۔ یاد آیا کہ کس طرح وہ اور ان کے دوست اس بات پر فخر کر رہے تھے کہ دوران ریلی میاں صاحب نے گاڑی کے بند شیشے کے پیچھے سے ان کے سلام کا جواب دیا تھا۔

اور اب صورتحال یہ ہے کہ مریم بی بی سمیت پوری اعلیٰ قیادت کی ٹائم لائن پر اس معاملے پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ یادوں کے اس ریلے میں وہ بیان بھی ذہن کے پردے پر لہرایا ہے جس میں پارٹی قیادت نے انہیں ہیرے قرار دیا تھا۔ لیکن اب جب یہ کارکن خود مشکل میں ہیں تو قیادت کی جانب سے ایک ٹویٹ تو کجا ایک لفظ بھی سننے کو نہیں مل رہا ہے۔ لے دے کے خواجہ سعد رفیق ہی ہیں جو نظموں کی زبانی اب یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ محاذ پر ڈٹے رہیں گے۔ اب محاذ سے ان کی مراد محض میاں صاحب اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات ہیں یا مجموعی صورتحال، یہ واضح نہیں لیکن عملی صورتحال تو سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ پوری مسلم لیگ نون سیاست اور ریاست کو بھلا کے محض ایک خاندان کو بچانے کے لئے دائو پیچ آزما رہی ہے۔

ویسے تو پاکستانی یادداشت کے معاملے میں خاصے کمزور ہیں اور 18 برس قبل قیادت کی اس بے وفائی کو بھولے بیٹھے ہیں لیکن نجانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں شاید ایسا نہ ہو۔ سوشل میڈیا اب عوام کو کچھ بھی بھولنے نہیں دیتا۔ آج قیادت کی خاموشی ان میں غم و غصے کو ہوا دے رہی ہے، ایسا نہ ہو کہ کل کو جب قیادت کو ان کارکنوں کی ضرورت ہو تو اسے بھی وہی بے بسی محسوس ہو جو آج قید میں موجود عادی تنولی کو محسوس ہورہی ہوگی یا انیحہ چودھری کو۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi